کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 179
نہ رہا تو تسبیح کے دانے بکھر جائیں گے۔ کس نے کہا تھا؟ او جاؤ پوچھو اہل کائنات سے کبھی انصاف سے بھی بات کر لیا کرو۔ گالی دینا تو بڑا آسان ہے۔ کائنات میں کون ہے جس کو گالی نہیں دی جا سکتی۔ ہاں ہم کو تمہاری ایک عادت معلوم ہے اور وہ یہ کہ تم کائنات میں ہر شخص کو گالی دے سکتے ہو گالی نہیں دے سکتے تو حکمرانوں کو نہیں دے سکتے۔ ہم کو معلوم ہے۔ آج آیت اللہ خمینی کا ورد کرنے والو مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو بتلا اے لاہور بتلا اے پشاور بتلا اے راولپنڈی بتلا اے ملتان بتلا اے کراچی جب شاہ زندہ تھا خمینی کو مار رہا تھا اس کے ساتھیوں کو قتل کر رہا تھا پورے پاکستان میں کون تھا۔ جو خمینی کا نام لیتا تھا؟ ہم تھے کہ تم ؟ اور کیا پوچھیں تم نے تو صرف چڑھتے سورج کو سلام کیا ہے۔ تم نے حسین کے بھائی کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ اور مورخین نے بتلایا کہ جب اٹھارہ ہزار لے کر نکلے۔ حکمران اکیلا بیس بائیس آدمیوں کے ساتھ آیا اور پھر ان کی کیفیت یہ تھی کہ مسلم ابن عقیل کوفہ کے ایک ایک دروازے پر دستک دیتا تھا کوئی بندہ اس کے لئے اپنے دروازے کے در کھولنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ہم کو معلوم نہیں ہے؟ خمینی کے لئے مقدمہ ہم پہ چلا۔ اس وقت اس کا نام ہم نے بلند کیا۔ مجھے بات کہنے کی عادت نہیں ہے لیکن معاف کر دو تم نے حسین کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔ آج فلیٹیز ہوٹل گواہ ہے۔ یوم حسین وہاں منایا گیا مجھ کو وہاں بلایا گیا۔ جنرل نصیری اس وقت پاکستان میں ایران کا سفیر تھا۔ شیعہ بھائیوں نے یہ مجلس بپا کی تھی اور زندگی میں پہلا اور آخری موقعہ تھا کہ مجھے کسی شیعہ مجلس میں بلایا گیا۔ میں گیا۔ خمینی لڑ رہا تھا اس کے ساتھی مر رہے تھے شاہ مار رہا تھا۔ سفیر ایران مجلس کا مہمان خصوصی تھا۔ میں نے اپنا رخ پلٹ لیا۔ میں نے کہا میں ظالموں کے سفیروں کے سامنے تقریر کرنا گوارہ نہیں کرتا۔ ہم سوداگران حسین نہیں سوگواران حسین ہیں ۔ سوگوار اور ہوتے ہیں سوداگران اور ہوتے ہیں۔ تم نے ہمیشہ ظالموں کا ساتھ دیا