کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 178
لئے بدمزہ نہیں ہوتے کہ کمزور ہیں بے طاقت ہیں اور طاقت و قوت کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو آؤ ذرا عمر رضی اللہ عنہ کی تلوار سے دیکھو۔ ہم نے اس سے زیادہ کائنات میں‘ کسی کو طاقتور نہیں دیکھا۔ جب وہ تلوار لہراتا تھا تو آسمان کی پیشانی پہ شکن پڑ جاتی تھی۔تم نے دیکھا ہی نہیں۔ قصے ہم نے نہیں گھڑے کہانیاں ہم نے بیان نہیں کیں کہ کہانیوں کو اپنا مذہب وہ بنائے جس کے پاس اصل نہ ہو۔ جس کے پاس اصل ہو اس کو کہانیوں کی احتیاج اور ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جھوٹ کا سہارا کون لیتا ہے؟ جس کے پاس سچ نہ ہو جس کے پاس پیسے نہ ہوں وہ کوکا کولا کے خالی ڈھکنے اپنی جیب میں ڈال کے ان کو کھٹکھٹاتا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے پیسے ہیں۔ جس کی جیب میں روپے ہوں وہ کبھی کسی کی طرف پلٹ کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ تو خیبر کے دروازے کے قصے بنا تو ذوالفقار حیدری کے قصے بنا تو جو جی چاہے قصے بنا۔ میں کہتا ہوں جا ایران کے شہنشاہ کسری سے پوچھ وہ کون تھا کہ جس کا نام آتا تھا تو تو لرزنا شروع کر دیتا تھا؟ پوچھنا ہے تو ان سے پوچھ مجھ سے کیا پوچھتا ہے ؟ ہم سے کیا کہتا ہے؟ وہ کون تھا جس نے آدھی دنیا کو اپنے پیروں کے نیچے روندا تھا؟ وہ کون تھا جس نے قیصر و کسری کے ایوانوں کو اوندھا کیا ؟ وہ کون تھا جس نے شہنشاہوں کے تاجوں کو فقیروں کے قدموں میں ڈالا تھا؟ ہم کو قصے کی ضرورت نہیں ہے ہم کو کہانی کی ضرورت نہیں ہے۔ جا اپنے گھر سے پوچھ۔ ہم سے نہ پوچھ ۔نہج البلاغہ سے پوچھ۔ وہ کون تھا کہ کائنات جس کو قطب سمجھتی تھی ؟ وہ کون سی شخصیت تھی جو ساری کائنات کو دانے سمجھتی تھی اس کو دانوں کا امام سمجھتی تھی؟ پوچھ جا کے نہج البلاغہ سے اٹھا کے تو لا ذرا۔ مولوی کو کہہ کہ گھنٹے کے لئے کتاب مجھ کو دے۔ خدا کی قسم ہے اس کی سیاہی کو میں تیرے سامنے روشن کروں گا۔ تو آ تو سہی۔ اٹھا نہج البلاغہ کو۔ فاروق رضی اللہ عنہ دشمن سے لڑنے کے لئے چلا۔ کہا نہ جا کہا کیوں نہ جاؤں؟ کہا اگر تو چلا گیا تو مسلمانوں کا ملجا و ماوی چلا جائے گا۔ اگر تو نہ رہا تو مسلمان کہاں جائیں گے؟ کہا جاتا ہوں۔ کہا تسبیح تب تک سلامت ہے کہ اس کا امام سلامت ہے۔ امام سلامت