کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 177
گھر دوسرا بیٹا آیا۔ کس کے نام پہ نام رکھ رہے ہو؟ کہا نبی کے یار غار کے نام پہ ابو بکر رکھ رہا ہوں۔ جاؤ بس اک نگاہ پر ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا خدا کی قسم ہے صرف اس بات پہ فیصلہ کر دو۔ لڑائی ہم کو نہیں آتی جھگڑنا ہم نے نہیں سیکھا گالی دینے کا طریقہ ہم کو ہمارے بڑوں نے بتلایا ہی نہیں کہ ہمارا مذہب پیار ہمارا مسلک محبت ہے میری آواز محبت ہے جہاں تک پہنچے گالی نہیں دیتے البتہ گالی سن کے بدمزہ بھی نہیں ہوتے اور کہتے کیا ہیں کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا کیوں بے مزہ نہیں ہوتے ؟ سوچتے ہیں گالی دینے والے نے ہم کو ہماری وجہ سے تو گالی نہیں دی۔ ہم نے قتل نہیں کیا چوری نہیں کی ڈاکہ نہیں ڈالا کیا کیا ہے ؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یاروں کی محبت کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہیں اور تو کوئی جرم نہیں کیا۔ خون نہ کردہ ایم کسے رانہ کشتہ ایم جرمم ہمیم کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم اور سن لو قسم ہے کعبے کے رب کی ہم تو ہیں محبت والے۔ ہم نے تو حجر اسود کو بھی اس لئے پیار کیا کہ آقائے مدینہ نے پیار کیا تھا۔ او ہم نے صدیق کو بھی اس لئے پیارا جانا کہ نبی سے پوچھا گیا تھا تجھ کو کائنات میں سب سے پیارا کون ہے؟ تو اس نے کہا تھا صدیقہ کا باپ صدیق ہے۔ ہم نے اس سے بھی پیار کیا تو نبی کی وجہ سے کیا۔ ہم نے فاروق کو پیارا جانا تو نبی کی وجہ سے جانا۔ ہماری علی سے بھی کوئی رشتے داری نہیں۔ اس سے بھی پیار کیا تو نبی کی وجہ سے کیا۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے جس کو تو چومتا ہے اس کو میری نگاہیں چومتی ہیں ہمارا تو عقیدہ یہ ہے‘ ہمارا تو مسلک یہ ہے‘ ہمارا تو نظریہ یہ ہے اور گالیاں کھا کے اس