کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 175
خوبصورت اشارہ کیا تھا۔ اور میں کہتا ہوں ایک اور طریقے سے سنو۔ کہتے ہیں یہ خلافت کا وارث ہے۔ کیوں وارث ہے ؟ کہتے ہیں چچا کا بیٹا ہے۔ ہم نے کہا اکیلا ہی تھا ؟ کوئی اور بھی تھا کہ نہیں ؟ اگر اکیلا تھا تو سچ ہے‘ اگر اور تھے تو اس کو کیوں ملی ان کو کیوں نہ ملی؟ اس کا بڑا بھائی تھا کہ نہیں ؟ یہ تو چھوٹا تھا عقیل رضی اللہ عنہ اس سے بڑا تھا۔ وہ بھی ابو طالب کا بیٹا یہ بھی ابو طالب کا بیٹا۔ پھر یہ چچا کا بیٹا تھا تو عبد اللہ ابن عباس نہ تھا کہ نبی نے رات کی تاریکی میں اس کو اپنے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ ماتھا چوما ہونٹوں کو اپنے لب ہائے مبارکہ سے لگایا۔ کہا اللھم علمہ القران و فقھہ فی الد ین اللہ! قرآن اتارا مجھ پہ ہے سمجھا اس کو دے وہ نہیں تھا عبید اللہ رضی اللہ عنہ نہیں تھا؟ او چلو بات چھوڑو۔ چچا کا بیٹا تو بیٹا ہے اگر وراثت چچا کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ملتی تو عباس کو کیوں نہ ملتی؟ وہ تو چچا تھا یہ تو چچا کا بیٹا ہے۔ جس کی وجہ سے رشتے داری بنی وہ خود موجود ہے‘ اس کو کیوں نہ ملی ؟ کہتے ہیں نہیں۔ چچا کے بیٹے کی وجہ سے نہیں داماد تھا۔ ہم نے کہا یہ ایک بیٹی کا شوہر تھا اس کا حصہ بن گئی تو جو دو کا تھا اس کو کیوں نہ ملی ؟ یہاں تو ایک بیٹی تھی ذوالنورین کے گھر دو بیٹیاں تھیں اس کو کیوں نہ ملی؟ کوئی بات کرتے ہو ؟ وراثت کی بات اور وہ لوگ بات کرتے ہیں جن کا مذہب ہی وراثت پر ہے۔ قاضی صاحب نے تو ویسے ہی ہماری وجہ سے بات کو مختصر کر دیا تھا۔ تمہیں پتہ نہیں ان کے مذہب کی بنیاد وراثت پر ہے۔ باپ کے بعد بیٹا بیٹے کے بعد پوتا پوتے کے بعد پڑپوتا پڑپوتے کے بعد اس کا بیٹا پھر اس کا بیٹا پھر اس کا بیٹا اور جب اولاد نہ ہوئی کہنے لگے امامت ہی ختم ہو گئی ہے۔ تمہارا تو مسئلہ ہی وراثت پہ ہے۔ جب بیٹا نہ رہا تم نے امامت بھی گم کر دی۔ تمہاری بات کیا ہے ؟ تم کیا اعتراض کرتے ہووراثت پر ؟ کوئی مسئلے ہیں؟ آؤ اہل بیت سے پوچھو۔ کون اہل بیت ؟ آج صدیق کو فاروق کو برا کہتے ہو۔ ان اہل بیت سے پوچھو۔ ان کی کیفیت کیا تھی؟