کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 174
کہا لوگوں نے کہا تجھ کو سمجھاؤں لیکن میں تیرے پاس آکے کہتا ہوں تجھ کو کیا سمجھاؤں ؟ انک لتعلم ما نعلم جو مجھ کو پتہ ہے تجھ کو مجھ سے بھی زیادہ پتہ ہے۔ پوچھو تو سہی۔ اہل بیت ؟ وہ تو بعد کی بات ہے کہ اہل بیت کون ہے کون نہیں۔ وہ بھی فیصلہ کر لیں گے۔ تم انہی کو مانو۔ یہ بھی ہمارے ہیں اور ہمارے کبھی ہم کو چھوڑ کے نہیں جا سکتے۔ او جن کے ہوتے ہیں وہ ساتھ دیتے ہیں۔ دیکھنا پھر کس کے ہیں ؟ کتاب تیری ہاتھ میرا۔ اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے کہا جو ہم جانتے ہیں تو جانتا ہے۔ جتنا نبی سے ہم نے سیکھا اتنا تونے سیکھا۔ جتنا نبی کو ہم نے دیکھا اتنا تونے دیکھا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ نام لے کے کہا۔ ابو بکر و عمر وہ بھی نبی کے پاس بیٹھے‘ انہوں نے بھی نبی سے سیکھا۔ انہوں نے بھی نبی سے حاصل کیا‘ وہ بھی نبی کی صحبت سے اکسیر بنے‘ وہ بھی نبی کی صحبت سے کندن بنے‘ وہ بھی نبی کی نظر سے آسمان کی بلندیوں سے ہمکنار ہوئے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ ایک شرف تجھ کو حاصل ہوا جو ان کو حاصل نہ ہوا۔ و قد نلت من صھرہ مالم ینالا۔(نہج البلاغۃ ص: ۲۳۴) او تجھ کو نبی نے دو بیٹیاں دیں۔ کائنات میں کسی دوسرے کو دو نہیں دی ہیں۔ آؤ تو سہی۔ کن کو برا کہتے ہو ؟ عثمان کو کہتا ہے تجھ کو نبی نے دو دیں۔ کائنات میں کسی کو کسی نبی نے دو بیٹیاں نہیں دیں۔ ہائے اور بات ہو رہی تھی وراثت کی۔ کیا کہوں اڑا دی بلبلوں نے قمریوں نے عندلیبوں نے چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری کیا کہوں کیا نہ کہوں۔ وقت تھوڑا بات بہتی۔ جی چاہتا ہے کہ تھوڑے وقت میں کچھ کہہ جاؤں۔ سن لو۔ ذرا توجہ سے سننا۔ کہہ رہے تھے مسئلہ وراثت کا ہے۔ قاضی صاحب[1] نے
[1] پروفیسر مقبول احمد قاضی۔ جماعت اہل حدیث کی نامور علمی اور فکری شخصیت۔ آپ حضرت علامہ شہید کے مخلص رفقاء میں سے تھے۔