کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 173
او جاؤ نہج البلاغہ کو اٹھاؤ۔ یزدانی صاحب بھی جوش میں کہہ رہے تھے تم نہج البلاغہ لے کے آنا ہم فلاں لے کر آئیں گے۔ ہم کہتے ہیں۔ تم نہج البلاغہ لے کر آؤ ہم نہج البلاغہ تمہیں کھول کے دکھاتے ہیں۔ آؤ تو سہی۔ قسم ہے رب کعبہ کی کافر ہے جو اپنی کتاب کا نام لے۔ کتاب تمہاری زبان ہماری۔ اپنی کتاب کے حوالے سے منوانا مزہ کیا ہے ؟ یہ کیا بہادری کی بات ہے؟ اپنی کتاب نہیں کتاب تمہاری۔ ذرا ہماری انگلیاں تو لگنے دو۔ دیکھو کیسے بولتی ہے۔ تم نے کتاب رکھی ہوئی ہے بند کر کے۔ ہم نے کتاب تمہیں کھول کے دکھائی۔ آؤ بیگانوں سے نہ پوچھو۔ اپنوں سے پوچھو جن کو تم اہل بیت کہتے ہو۔ نہج البلاغہ تمہاری کتاب تمہاری چھپی ہوئی تمہاری شائع کردہ کاغذ تمہارا سیاہی تمہاری حروف تمہارے تاریکی تمہاری روشنی میری ہے۔ آ ذرا سن لے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان کے پاس آیا ہے۔ لوگوں نے کہا علی عثمان کو جا کے سمجھاؤ۔ سمجھانے آئے۔ کیا ؟ جاؤ! اٹھاؤ نہج البلاغہ۔ اس گاؤں کے چوہدری موجود ہیں۔ حکومت کے سی آئی ڈی کے لوگ موجود ہیں اور ہم تو ایسے خوش نصیب ہیں جہاں ہم جاتے ہیں سی آئی ڈی ہمارے لئے سپیشل آتی ہے۔ ہاں اس لئے کہ میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو آ! میں تجھے بتلاؤں نہج البلاغہ میں کیا لکھا ہے؟ اسی لاہور میں رہتا ہوں‘ اسی جگہ بستا ہوں۔ حوالہ میرے ذمے اور جاؤ‘ اس گاؤں کے چوہدریو! تم گواہ رہنا۔ کعبے کے رب کی قسم کھا کے کہتا ہوں حوالہ غلط ثابت ہو اور پاس کچھ نہیں اپنی گاڑی اس کو انعام میں دینے کے لئے تیار ہوں جو حوالہ غلط ثابت کرے؟ آؤ تم جس کو اہل بیت کہتے ہو۔ اس سے پوچھتے ہیں۔ علی تو سید اہل بیت ہے ذوالنورین کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟ کہتا ہے ذوالنورین ضی اللہ عنہ ! لوگوں نے کہا تجھ کو سمجھاؤں۔ کہنے والے سبائی تھے۔ مجبور کرنے والے کہتے تھے یہ باب علم ہے اور جو علم کے دروازے سے نہ گزرے اس کا علم نہیں۔ آؤ باب علم سے پوچھو۔ باب علم نے عثمان کو کیا کہا ؟