کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 172
طالب کا بڑا بیٹا عقیل رضی اللہ عنہ ہوگا‘ میں نے سوچا تھا کہ ان میں ایک علی ہوگا میں نے سوچا تھا ان میں ایک فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوگی‘ میں نے سوچا تھا ان میں ایک حسن رضی اللہ عنہ ہوگا میں نے سوچا تھاان میں ایک حسین رضی اللہ عنہ ہوگا لیکن جب میں نے اصول کافی کو اٹھایا جب میں نے تمہاری کتاب رجال کشی کو اٹھایا تو اس میں لکھا ہوا تھا صرف تین آدمی بچے۔ ایک سلمان تھا دوسرا ابو ذر تھا تیسرا مقداد تھا او مجھے بتلاؤ کہ نبی کا گھرانہ کہاں گیا ہے ؟ کسی کو مردہ نہ کہو! ہم تو تمہیں بھی زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم ہے ہماری آرزو یہ ہے کہ ہم تمہاری تباہی کی دعا نہیں مانگتے تمہاری ہدایت کی دعا مانگتے ہیں۔ ہم نہیں مانگتے ۔ اس لئے کہ میرے دین میں تبرا ہے ہی نہیں۔ میرا دین تو لا ہی تولا ابوبکر ہو تب بھی تولا فاروق ہو تب بھی تولا ذوالنورین ہو تب بھی تولا حیدر ہو تب بھی تولا حسن ہو تب بھی تولا حسین ہو تب بھی تولا۔ او تبرا تیرے ہاتھ میں آیا۔ تونے میرے بڑوں کو گالی دی اور نہ جانا کہ اپنے گھر کا بھی صفایا کر رہا ہے۔ تونے سوچا ہی نہیں۔ سن لو! جن کا مسلک پیار کا ہوتا ہے وہ اپنوں کو بھی بچا لیتے ہیں بیگانوں پہ بھی چھینٹے نہیں پڑنے دیتے اور جن کو دشمنی کی عادت پڑ جائے او جن کو کاٹنے کی عادت پڑ جائے وہ جلے ہوئے تنکوں کے ساتھ سر سبز و شاداب درختوں کو بھی کاٹ دیتے ہیں۔ تمہیں کاٹنے کی عادت پڑی ہوئی ہے‘ گالی دینے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور حافظ عبد اللہ صاحب زور لگا رہے تھے۔ نبی کا اہل بیت کونسا ہے۔ بیویاں ہیں کہ بیٹیاں ہیں کہ گھر والے۔ بات ٹھیک تھی لیکن میں کہتا ہوں حافظ صاحب یہ سیدھی سادھی قوم ہے۔ ان کو کہو جن کو تم اہل بیت مانتے ہو ہم انہیں کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں۔ تم چلو تو سہی۔ ہمارے پاس آؤ تو سہی او دل تبدیل کرو تو سہی سینوں سے لگو تو سہی۔ آؤ تم ان کو اہل بیت نہ مانو جن کو قرآن کہتا ہے۔ تم ان کو اہل بیت مان لو جن کو تم کہتے ہو۔ ان کو مانو۔ او ان سے تو صدیق کے بارے میں پوچھو او ان سے تو فاروق کے بارے میں پوچھو او ان سے تو ذو النورین کے بارے میں پوچھو