کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 170
سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے درمیان ان کے درمیان یہ اختلاف ہو گیا ہے اس بات پہ ہم جھگڑ رہے ہیں یا بات ایسی ہو جس پر اختلاف کی صورت میں کوئی حل نکل آئے کوئی نتیجہ نمودار ہو جائے۔ تب بھی جھگڑنے کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے کہ میری زمین ہے دوسرے نے لے لی ہے میں جھگڑ رہا ہوں تاکہ میری زمین واپس مل جائے۔ پھر تو واقعی جھگڑنا چاہئے لیکن یہ ایک ایسا جھگڑا ہے جس کا کوئی فائدہ کوئی نتیجہ اور کوئی ماحاصل نہیں ہے۔ ماسوائے اس بات کے کہ امت کے ذہنوں میں ان پاک ہستیوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں کہ اگر وہ پاک وجود نہ ہوتے تو آج ہم‘ ہمارے گھروں والے‘ ہماری اولادیں‘ ہمارے اباؤاجداد مسلمان نہ ہوتے۔ آج ہم بھی واہگہ کے پار رہنے والوں کی طرح جنجو پہن کے تین سو ساٹھ خداؤں کے پرستار ہوتے‘ ان کی پوجا کر رہے ہوتے۔ آج اگر ہم مسلمان ہیں اپنے آپ کو حلقہ بگوشان اسلام کہتے ہیں‘ نبی کے جانثاروں میں ہمارا شمار ہوتا ہے‘ سرور کائنات کا طوق غلامی ہم اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں‘ آپ کی محبت کے ہم نعرے بلند کرتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان پاکباز ہستیوں نے اس پودے کو جسے نبی نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اپنا خون دے کے سینچا۔ ہماری حالت عجب ہے کہ جس درخت کے نیچے ہم تپتی ہوئی دوپہر میں سستانے کے لئے آرام کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم اسی درخت کو کاٹنے کے لئے ہاتھ میں کلہاڑے لے کے دوڑ رہے ہیں۔ آج کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر صدیق نہ ہوتا‘ فاروق نہ ہوتا‘ ذوالنورین نہ ہوتا رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ علی المرتضی نہ ہوتے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں نے مسلمان ہونا تھا اور پھر میں نے حضرت علی کا نام لیا ہے لیکن یارو نہ جانے تمہیں پہلے تین کا نام لیتے ہوئے کیا تکلیف ہوتی ہے؟ ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی۔ ایک موٹی سی بات کہتا ہوں۔ مولانا نے تو آپ کو بہت قرآن سنایا اور نہ جانے کب ہمارے دل کھلیں گے کہ قرآن ہم سمجھیں۔ میں ایک سیدھی بات آپ کو بتاتا ہوں۔ کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ اگر صدیق فاروق اور عثمان کو اسلام کی تاریخ سے نکال دیا جائے تو اسلام کی تاریخ کا آغاز کہاں