کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 17
معنوں میں علمبردار اور گنبد خضراء کے مکین کے حقیقتا پیروکار تھے اور آج اسلام کو ہم نے چھوڑ دیا اور رحمت و نصرت رب ہم سے منہ موڑ گئی اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ گریباں پھٹ گئے دامن چاک ہو گئے اور حرم نبوی الجہاد الجہاد کے نعروں سے گونجنے لگا۔ اور ادھر میں یونیورسٹی پہنچا ادھر سعودی سی آئی ڈی کا نمائدہ حکم سرکاری لئے آگیا کہ اس پاکستانی طالب علم کو آئندہ حرم نبوی یا کسی دوسرے مقام پر جنگ کے موضوع پر تقریر کی اجازت نہیں جو جذبات سے کھیلتا شعلے اگلتا اور آگ برساتا ہے یہ ان دنوں کے تذکرے ہیں جب آپ ابھی طالب علم ہی تھے۔ سعودی عرب سے واپسی پر آپ مسجد چینیانوالی کے خطیب مقرر ہوئے۔ اس حیثیت سے آپ نے مینار پاکستان کے ساتھ اقبال پارک میں عید کا تاریخی خطبہ دیا۔ لوگ آپ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے کہ آپ سید داؤد غزنوی کی مسند کا حق صحیح طور پر ادا نہ کر سکیں گے چونکہ ان دنوں ایوب خان کے خلاف تحریک عروج پر تھی اس لئے لوگوں کی نظریں اقبال پارک میں عید کے اجتماع پر تھیں۔ آپ کے سامعین میں اردو کے مایہ ناز خطیب آغا شورش کاشمیری میاں عبد العزیز مالواڈہ اور میاں محمود علی قصوری بھی شامل تھے۔ آپ کے خطبہ کو سن کر آغا شورش کاشمیری نے جو تبصرہ فرمایا اس کا ذکر آپ نے اپنے انٹرویو میں یوں کیا ہے مجھے یاد ہے کہ آغا شورش کاشمیری مرحوم بھی عید کا خطبہ سننے والوں میں موجود تھے۔ نماز عید کے بعد وہ مجھے میاں عبد العزیز مالواڈہ کی ہمراہی میں ملے اور کہنے لگے میں خود بھی فن خطابت میں بہت زیادہ دسترس رکھتا ہوں مگر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ احسان الٰہی اگر تم آئندہ سے خطابت چھوڑ دو تو تمہاری صرف اس ایک تقریر سے تمہیں برصغیر پاک و ہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جائے گا۔ میاں عبد العزیز مالواڈہ نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان کے بڑے بڑے خطیبوں اور سیاست دانوں کی معرکتہ الاراء تقاریر اکٹھی کی جائیں تو ان میں جو تقریر سرفہرست رکھی جائے گی وہ یہی ہو گی اردو اور عربی کے اپنے دور کے عظیم خطباء کا یہ خراج تحسین کوئی مبالغہ نہ تھا بلکہ حقیقت پر