کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 166
طاری ہوئی گردن قرآن پہ ڈھلک گئی۔ نائلہ گھبرا گئیں کہیں آقا کی روح رخصت نہ ہو گئی ہو؟
ہلایا عثمان نے آنکھیں کھولیں نائلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا عثمان اتنی نقاہت اور کمزوری ہو گئی کہ اب وجود سنبھالنا بھی ممکن نہیں رہا۔ آج کیا ہو گا روزہ کیسے کھولو گئے ؟
عثمان نے فرمایا بی بی غم نہ کرو۔ ابھی جب قرآن پہ سر رکھے غشی کی حالت میں تھا میں نے دیکھا کہ میرے آقا و مولا تشریف لائے ہیں۔ ساتھ ابو بکر ہیں‘ عمر ہیں۔ میرے ڈھلکے ہوئے سر کو دیکھا۔ فرمایا عثمان کیا بات ہے ؟
کہا یا رسول اللہ چالیس دن سے نہ کچھ کھایا نہ پیا ہے۔ نیت سے روزہ رکھا ہوا ہے۔ آقا نے کہا عثمان غم نہ کرو۔ آج روزہ ہمارے ساتھ افطار کرنا ہے۔ فرمایا نائلہ معلوم ہوتا ہے کہ آج یہ دکھوں کے دن کٹنے والے ہیں۔ آقا نے خود روزے کی افطاری کی دعوت دی ہے۔ ابھی نائلہ پلٹ کے نہیں گئیں کہ عثمان نے پھر قرآن کی تلاوت شروع کی۔ چار بدبخت دیوار پھلانگ کے اندر آگئے۔ نائلہ چلائیں عثمان دشمن آج دیواروں کو بھی پھلانگ آیا ہے۔ عثمان نے اپنی نگاہوں کو قران کے اوراق پہ جما دیا۔ نائلہ بھاگ کے کندھے کو پکڑتی ہیں عثمان دیکھو دشمن آپہنچا۔ فرمایا نائلہ روزے کے آخری دن میری نگاہوں کو قرآن کے اوراق سے تو نہ ہٹاؤ۔ جی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن جب رب پوچھے کہ عثمان آتے ہوئے اپنی آخری نگاہ کس پہ ڈالی تھی تو کہہ سکوں اللہ کائنات کو چھوڑتے ہوئے آخری نگاہ اگر ڈالی تھی تو تیرے قرآن کے حروف پہ ڈالی تھی۔
دشمن بھاگتے ہوئے آئے۔ ایک بدبخت نے داڑھی مبارک کو پکڑا جھٹکے دئیے۔ عثمان نے پھر بھی نگاہ اٹھا کے دیکھنا گوارہ نہ کیا۔ ایک اور آگے بڑھا اس نے نیزے کا وار کیا۔ نیزہ پسلیوں کو توڑتا ہوا نکل گیا۔ عثمان نے پھر بھی گردن نہیں اٹھائی۔ قرآن کی تلاوت میں مشغول رہے۔ ایک بدبخت اور آگے بڑھا۔ اس نے تلوار کا وار کیا۔ گردن کٹ رہی تھی عثمان کے لبوں سے آواز نکل رہی تھی
فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔(سورۃ البقرہ:۱۳۷)
ایک دن آئے گا جب ان ظالموں سے ایک ایک بات کا حساب لیا جائے گا۔
نائلہ نے ہاتھ آگے کئے چاروں انگلیاں کٹ کے نیچے گر پڑیں۔ عثمان کی لاش بے