کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 165
باغیوں نے دیکھا بدکرداروں نے دیکھا بدمعاشوں نے دیکھا بدقماشوں نے دیکھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کا بھی احترام نہیں کیا۔ یہاں افسانے کہ فلاں سے مشکیزہ چھینا فلاں سے یہاں حقیقت کہ رسول اللہ کی بیوی مشکیزہ لے کے گئی۔ رسول کی بیوی کا احترام نہیں کیا۔ خنجر مارا مشکیزہ پھاڑ دیا۔ خچر کو پیچھے سے نیزہ مارا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کو لے کر خچر صحراؤں میں نکل گیا ۔ ظلم ؟
علی کو پتا چلا اپنے بیٹوں کو پانی دے کے بھیجا کہا جاؤ آج رسول کا داماد صحابہ کا سرخیل سرور کائنات کا جانثار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان اقدس سے جنت کی بشارت پانے والا پیاسا ہے۔ ام المومنین کو بھی پانی نہیں لے جانے دیا گیا۔ حسین تم جاؤ حسن تم جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کو پانی دے کے آؤ اپنے خالو کے گھر پانی دے کے آؤ۔ دشمنوں نے روکا۔ او عثمان تیری شرافت کا کیا کہنا ہے۔ دیکھا باغی روک رہے ہیں حسن و حسین آگے بڑھ رہے ہیں۔ جھروکے سے آواز دی
انشد کما باللّٰه
رسول کے نواسو عثمان تمہیں تمہارے نانا کے رب کی قسم دے کے کہتا ہے عثمان کے لئے مت لڑو۔ لڑنا ہے تو رب کے لئے لڑو۔ پانی واپس لے جاؤ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کو تکلیف میں دیکھنا گوارہ نہیں کرتا۔
مظلومیت کی شہادت۔ انتالیس روز گزر گئے نہ کچھ کھایا ہے نہ پیا۔ امیر المومنین کی اہلیہ حضرت نائلہ مغرب کی اذان کا وقت ہوتا ہے اذان کی آواز آتی ہے دوڑی ہوئی آئیں عثمان آج تو روزہ افطار کرنے کے لئے گھر میں نمک بھی نہیں ہے۔ کہا نائلہ غم نہ کرو۔ روزہ نیت کا۔ نیت سے ہی رکھا اور نیت سے ہی افطار کر لیا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ صبح اٹھے چالیسواں دن ہے۔ روزہ رکھنے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں۔ نائلہ روتی ہوئی آئیں کہا میرے سرتاج آج تو روزہ رکھنے کے لئے پانی کا گھونٹ بھی نہیں ہے۔ فرمایا جس طرح رات نیت سے افطار کیا تھا اسی طرح آج نیت سے رکھ لیتے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہو گیا۔
جمعے کی نماز کا وقت ہوا۔ عثمان پہ غشی طاری ہونے لگی۔ قرآن سامنے رکھا ہوا ہے۔ نائلہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون ٹپک رہا ہے۔ اسی طرح قرآن پڑھتے پڑھتے غشی