کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 164
شجاعت کی داستانیں اور ادھر مظلومیت کا اظہار۔ ادھر خطوط کی بارش آؤ حکومت لے لو اور ادھر سوالات کی بوچھاڑ اور جوابات کا سوال۔ او لوگو بتلاؤ! جب مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی کون تھا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کے لئے جگہ خرید کے دی ؟ کہا عثمان تم تھے۔ کہا آج جو جگہ میں نے خرید کے دی مجھ کو اس مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیتے۔ کہا جب پینے کے لئے کوئی پانی نہ تھا۔ وہ کون تھا جس نے اپنی جیب سے کنواں خرید کے دیا ؟ کہنے لگے عثمان وہ تم تھے۔ کہا جس کنویں کو میں نے اپنی جیب سے خرید کے دیا آج مجھے اسی کنوئیں سے پانی پینے کی اجازت نہیں ہے ؟ کہا وہ کون تھا جس کے جانور اتنے لاتعداد اور بے شمار تھے کہ مدینہ کی بستیوں میں نہیں سما سکتے تھے اور آج جس کے پاس او ذرا دیکھو تو سہی۔ جس نے قلم اٹھائی اس کی سیاہی اپنے چہرے پر مل لی۔ عثمان پہ چھینٹے ڈالے۔ عثمان نے یہ کیا وہ کیا۔ عثمان نے کیا کیا ؟ جس کے نوکروں کی زر خرید غلاموں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ جس کے ریوڑوں کی تعداد لا تعداد و بیشمار تھی۔ اس کے پاس اس کی ڈیوڑھی میں صرف ایک اونٹ بندھا ہوا۔ کہا آسمان والے تو بھی گواہ زمین والو تم بھی گواہ روئے زمین پہ عثمان کی ملکیت میں ایک اونٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ اونٹ بھی اپنے لئے نہیں رکھا کعبہ کی زیارت کے لئے رکھا ہوا ہے۔ سب کچھ رب کی راہ میں لٹا دیا۔ وہ عثمان ام المومنین نے بات سنی نبی کی بیوی نے کہ آج عثمان گیارہ دن کا بھوکا اور پیاسا اپنے گھر کی چھت سے باغیوں کو خطاب کر کے پانی کا سوال کرتا ہے۔ ام المومنین نے پانی کا مشکیزہ بھرا‘ خچر پہ سوار ہوئیں عثمان کے گھر کی طرف چلیں۔ ظلم کی داستان کون بیان کرے ؟ آج تاریخ کے چہرے کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ عثمان کے گھر کی طرف چلیں۔