کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 163
جہاز نہیں بنا سکتا جتنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خادم کے دور میں بنائے گئے تھے۔ کیا جانتے ہو عثمان کون تھا ؟ اتنا بڑا حکمران۔ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مقام اس کی شان اس کی عظمت اس کے جلال اور اس کے شکوہ کو جانتے تھے کہ یہ مسلمانوں کا ایسا قائد ہو گا جس طرح رخ کرے گا رب کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوں گے اور وہ قائد کہ دنیا کا کوئی لشکر جس کے مقابل صف آرا نہ ہو سکا۔ جس کے ادنی اشارہ ابرو پر افریقہ ایشیا ایشیائے کوچک اور یورپ کی فوجیں تہہ و بالا ہو جاتی تھیں۔ آج خود اس عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھاگے ہوئے آئے‘ امیر المومنین باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ نبی کے سات سو صحابہ آج بھی مدینے میں موجود ہیں۔ حکم دیجئے ان کی گردنوں کو اڑا دیتے ہیں۔ عثمان نے اپنی نگاہ اٹھائی فرمایا ابو ہریرہ سن لو جو تلوار رب کے لئے اٹھی ہے اسے اپنی ذات کے لئے استعمال کرنے پر تیار نہیں ہوں۔ لشکر تہہ و بالا رب کے دین کے لئے اپنی ذات کے لئے ایک آدمی کا خون بہانا گوارہ نہیں۔ پلٹ جاؤ۔ دوسرے آئے گورنر شام کو خط لکھو ساٹھ ہزار فوج تیری حفاظت کے لئے تیار ہے۔ فرمایا ساٹھ ہزار تو بڑی بات ہے میں تو ساٹھ آدمی بھی اپنے لئے نہیں چاہتا۔ او تقابل کرنا ہے تو آؤ مظلومیت کا حوالہ دینا ہے تو آؤ۔ ایک طرف معرکہ کرب و بلا ہے ایک طرف مدینۃ النبی میں داماد نبی ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی۔ مظلومیت کی بات کرتے ہو۔ دیکھو مظلوم کون ہے ؟ ایک طرف میدان کار زار ہے۔ ادھر بھی تلواریں ہیں ادھر بھی تلواریں ہیں۔ ادھر بھی لشکر ہے ادھر بھی لشکر ہے۔ کوئی تھوڑا ہے کوئی بہتا ہے۔ ادھر بھی جانثار ادھر بھی جانثار۔ لیکن ادھر ان کے سوا کوئی بھی نہیں ہے۔ ادھر صرف خون کے پیاسے اور ساری کائنات اشارہ ابرو پہ گردن کٹانے کے لئے تیار لیکن کسی ایک کو بھی اپنے دروازے پہ متعین کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ادھر دس کو قافلہ آیا آٹھ بجے پہنچا گیارہ بجے لڑائی شروع ہوئی پونے ایک بجے معرکہ ختم ہو گیا۔ ادھر چالیس دن تک پانی کو بند کیا گیا۔ کھانے کے لئے کچھ نہیں آنے دیا۔