کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 161
نے اپنی مونچھیں نیچی کر لیں۔ نہ تردید کی جرات ہوئی نہ تنقید کی جرات ہوئی۔ غیرت ہوتی تو ڈوب مرتے۔ لیکن حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے غیرت کہاں رہی؟ لٹیروں کے گھر غیرت نہیں ہوتی ہے۔ لوٹ مار کرنے والے ان کے گھر غیرت کہاں سے آئے ؟ شرم آنی چاہئے۔ یہ خبر اخباروں میں چھپی۔ کائنات کے ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اس خبر کو لے کے اڑے۔ نہ اس گورنر کو تبدیل کیا نہ اس خبر کی تردید کی۔ ہم بات کرتے ہیں ہمارا گلا گھونٹنے کے لئے آگے بڑھ آتے ہیں۔ دس برس نہیں ابھی آٹھ برس گزرے ہیں‘ ارب پتی ہو گئے۔ وہ لوگ اگر ایمان داری سے ریٹائر ہوتے تو ان کو اپنے سہارے کے لئے ملازم رکھنے کی توفیق نہ ہوتی۔ آج اس ملک کے سب سے بڑے چوہدری سرمایہ دار بن بیٹھے ہیں۔ یہ ہے حکومتوں کا عالم اور حکومت کہاں سے کہاں تک؟ کراچی سے پشاور تک اور حکومت ان کی جنہوں نے ایک انچ زمین فتح نہیں کی۔ بلکہ جو رب نے عطا کی ہے اس کو گنوانے پر تلے ہوئے ہیں اور بزدل اتنے ہر روز خبر آتی ہے چھوٹی سی پدی ببرک کارمل ہر روز اس کے طیارے آتے ہیں بم برسا کے چلے جاتے ہیں کوئی ٹوکنے روکنے والا نہیں ہے۔ فوجیوں کی حکومت ہے ناں جرنیلوں کی حکومت ہے بہادروں کی۔ ٹوکنے کی جرات نہیں روکنے کی جرات نہیں۔ بزدلی کا عالم یہ ہے۔ ایک طرف وہ عثمان اور تم کو کیا بتلاؤں عثمان کی باتیں ؟ کعبے کا رب گواہ ہے اگر عثمان کے فضائل و مناقب بیان کروں تو زمین کا سینہ پھٹ جائے۔ سن لو! آج تمہیں ایک ایسی بات بتلانے لگا ہوں جو شاید پہلے نہ سنی ہو اسلام کی تاریخ میں سب سے بڑا حکمران جو مشہور ہے وہ کون ہے ؟ فاروق اعظم سنو بات آج یہ بات سن کے اپنے دماغ کی تختیوں پہ قلم بند کر لینا۔ سب سے بڑا حکمران اسلام کی تاریخ کا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور ہے لیکن تم نہیں جانتے کہ عثمان کے ساتھ تاریخ نے کتنا دھوکہ کیا اور مسلمانوں نے کتنا ظلم کیا۔ آج بات کو سن لو۔ فاروق اعظم