کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 16
اذان عشاء نے سلسلہ تقریر منقطع کرنے پر مجبور کر دیا۔ نماز کھڑی ہو گئی لیکن میرے یمین و یسار سسکیاں گونجتی رہیں۔ ادھر سلام پھری ادھر لوگ پل پڑے۔ عربوں کے ہاں اظہار محبت کے لئے ماتھے کو چومتے اور ناک پر بوسے دیتے ہیں۔ آدھ گھنٹے تک نشانہ ستم بنا رہا۔ کچھ بھیڑ چھٹی تو ایک انتہائی خوبصورت اور وجیہ عرب چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی رکھے دو جوانوں کے سہارے آگے بڑھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے ایک حصہ جسم پر فالج کا اثر ہے۔ اس نے آتے ہی میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پوچھا کہاں سے ؟ میں نے جواب دیا ……پاکستان پاکستان سے ؟ انہوں نے حیرت و استعجاب سے دھرایا۔ جی ہاں ۔ میں نے جواب دیا مجھے اپنے سینے سے بھینچتے ہوئے بولے ’’ پاکستانی ایسے ہی باکمال ہوتے ہیں۔ جوان لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں عالم عرب کا سب سے بڑا خطیب ہوں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم مجھ سے بھی بڑے خطیب ہو۔‘‘ یہ اس زمانے کی بات ہے جب آپ کی عمر بمشکل ۲۳ برس تھی اور ابھی آپ میدان خطابت کے باقاعدہ شہسوار نہ تھے۔ اسی مسجد نبوی میں آپ نے ایک بار پھر اپنی شعلہ بیانی اور سحر افشانی کا مظاہرہ کیا کہ جب یہودیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور مسجد نبوی کی روشنیاں گل کر دی گئیں اور اندھیرے میں نمازیں ادا کی گئی۔ آپ نے سفر حجاز میں اس کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے اس روز پہلی مرتبہ حرم نبوی کے مینار روشنی کے چراغوں سے محروم رہے۔ بتیاں گل کر دی گئیں اور اندھیرے میں نماز مغرب عشاء اور فجر ادا کی گئی۔ اللہ یہ دن بھی آنا تھا۔ میرے دل سے ہوک نکلی اور میں نماز فجر کے بعد روضہ اطہر کے پڑوس میں دل کے داغ نمایاں کرنے لگا کبھی دنیا مدینہ سے آنے والے قافلوں کے قدموں کے چاپ سنا کرتی تھی اور آج ہم مدینہ کے راستوں پر یہودیوں کی یلغار کی خبریں سن رہے ہیں۔ تب ہم اسلام کے صحیح