کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 159
ہائے جگر اور تمہارے امام ہائے معصوم کو اس کے دروازے کا چوکیدار مقرر کیا تھا۔ اس کے مقام کو کہتے ہو۔ جاؤ اپنی تاریخ کی کتابیں اٹھاؤ۔ ہماری تاریخ کی نہیں سنی کتابیں نہیں اپنی کتابیں اٹھاؤ۔ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسن و حسین کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ زندگی میں کبھی ان کو اف تک نہیں کہا کبھی ان سے تلخ کلامی نہیں کی کبھی انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ جب بھی بلایا حسن و حسین کو احترام سے بلایا۔ پوچھنے والے نے پوچھا علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو اتنے احترام سے بلاتے ہو؟
فرمایا بیٹوں کو احترام سے نہیں بلاتا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نواسوں کو احترام سے بلاتا ہوں۔ اس قدر احترام تھا۔ کہا یہ اس فاطمہ کے بیٹے ہیں جس کو رسول نے کہا تھا
من آذ ا ھا فقد آذ انی
جس نے میری فاطمہ کو دکھ دیا اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دکھ دیا ہے۔ میں اس لئے ان کا احترام کرتا ہوں۔ وہ بیٹے جن کو علی نے کبھی اونچی آواز سے بلایا بھی نہیں ہے۔ ان بیٹوں کو۔ تیری تاریخ کا حوالہ۔ مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا کہ جب عثمان کے دروازے پر پہریدار کی حیثیت سے علی نے متعین کیا اور پتہ چلا کہ عثمان نے ان کو واپس بھیج دیا اور لوگوں نے عثمان پہ حملہ کیا۔ وہ علی دوڑا ہوا آیا۔ حسن کے چہرے پہ طمانچہ مارا حسین کے گال پہ تھپڑ مارا۔ دونوں بیٹوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بابا زندگی میں کبھی جھڑکی بھی نہیں دی آج طمانچے مار رہے ہو ؟
کہا اس لئے مار رہا ہوں کہ تم نے اس کے دروازے کی چوکھٹ کو چھوڑ دیا جس کے دروازے پر آسمان کے فرشتے پہرہ دیتے ہیں۔ کس کے لئے مارا ہے؟
آج علی کی محبت کا دعوی کر کے عثمان پہ کیچڑ اچھالتے ہو۔علی وہ ہے جس نے اپنی فاطمہ کے بیٹوں کو رسول کے نواسوں کو اس لئے مارا کہ انہوں نے عثمان کے دروازے پہ پہرہ دیتے ہوئے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی تھی۔ اتنا احترام ہے عثمان کا اس قدر عزت ہے عثمان کی اس قدر تکریم ہے عثمان کی اور غنا تو نگری اللہ کی راہ میں سخاوت خدا کی راہ میں ایثار اس کا کیا عالم ہے ؟
عثمان وہ عثمان ہے کہ رب کی بارگاہ میں اپنا سب کچھ لٹاتا رہا۔ جو کچھ لٹاتا رہا رب اس