کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 157
اس منافق کے لئے اپنے دل میں غصے کا ذرہ بھر نہیں نفرت کا ذرہ بھی موجود نہیں۔ اپنی قمیض مبارک اتاری اور ابن ابی کے بیٹے کو دے کے کہا جاؤ اگر میرے کرتے سے اس کے عذاب میں کمی ہو سکتی ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ رحمت مجسم جب اس کا جنازہ تیار ہو گیا تو یہی بیٹا دوڑتا ہوا آیا۔ آقا! اگر آپ بخشش کی دعا بھی مانگ دیں تو آپ کا کیا جائے گا۔ شاید رب معاف کر دے۔ رحمت کائنات کا عالم کیا ہے ؟ اس کی آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا اٹھ کے کھڑے ہو گئے۔ فاروق اعظم نے دامن کو پکڑ لیا۔ یا رسول اللہ اس منافق کے جنازے کے لئے تو نہ جائیے جو آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ رحمت کائنات نے کہا فاروق اگر میرے جنازہ پڑھنے سے اس کی مغفرت ہوتی ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اعتراض کیا ہے وہ رحیم و کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس نے اپنے بدترین دشمن کا جنازہ پڑھانے سے انکار نہیں کیا۔ اگر آسمان سے وحی نہ آجاتی کہ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ فٰسِقُوْنَ۔(سورۃ التوبہ: ۸۴) اگر تم ستر مرتبہ بھی اس کی بخشش کی دعا مانگو گے رب تب بھی معاف نہیں کرے گا تو رحمت کائنات اس کا جنازہ پڑھنے سے کبھی انکار فرمانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بلکہ حدیث کے اندر یہ الفاظ ہیں فرمایا ’’اگر مجھے معلوم ہو کہ میرے اکہتر مرتبہ دعا مانگنے سے اس کی بخشش ہو جائے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے لئے بھی تیار ہے ‘‘ اس قدر رحیمی۔ وہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخصیت مقدسہ کے مقام کو آنے والی نسلوں کے لئے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس کو اپنی مسجد پاک کے اندر جہاں ہر روز و شب جبریل آیا کرتا تھا اس مسجد کو جسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اس مسجد کے اس منبر کے اوپر کھڑے ہو کر جس منبر کے تقدس کی آسمان کے فرشتے گواہی دیتے تھے جنت کی ایک دن میں آٹھ مرتبہ بشارت دی تھی۔ اس کے مقام کا مسئلہ آیا تو وہ رحمت مجسم قہر مجسم میں تبدیل ہو گیا۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے۔ او عثمان کے مقام سے ناآشنا لوگو سنو! ناطق وحی نے