کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 154
آپ نے اسی طرح مفت پانی دینا ہے تو باقی آدھا حصہ بھی خرید لیجئے۔ رحمت کائنات نے پھر اپنے منبر پر تشریف فرماکر یہی بات کہی۔
لوگو! عثمان نے بئر رومہ کا آدھا حصہ خرید کر مومنوں کے لئے وقف کیا۔ کون ہے جو اس باقی آدھے حصے کے لئے چندہ دے ؟ (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔
عثمان ابن عفان پھر اٹھ کے کھڑے ہوئے کہا اللہ کے رسول کسی اور سے چندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ عثمان باقی نصف کا چندہ دینے کے لئے بھی تیار ہے ۔
ایسے صحابہ ایسے رفقاء پہلے کس نبی کو عطا ہوئے تھے کہ اپنے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہیں لیکن اپنی ساری پونجی نبی کے ادنی اشارے پر قربان کر دی۔ ابھی چند دن نہیں بیتے تھے مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی اسلام پھیلنے لگا سرور کائنات کی شمع کے پروانے زیادہ سے زیادہ تعداد میں حضور کے گرد جمع ہونے لگے۔ مسجد سرور کائنات کے دست مبارک سے بنائی ہوئی مسجد کی جگہ مومنوں کے لئے تنگ ہو گئی۔ رحمت کائنات نے ایک جمعہ کے خطبے میں اپنے صحابہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھا اور مسجد کو دیکھا کہ وہ تنگی داماں کا شکوہ کر رہی ہے۔
آپ نے اعلان کیا لوگو تم میں سے کون ہے جو اس مسجد کی توسیع کے لئے جو کسی نبی کی بنائی ہوئی آخری مسجد ہے زمین خرید کر دے؟
اللہ کا رسول ناطق وحی اس سے وعدہ کرتا ہے کہ اس جگہ کے بدلے میں نبی اس کو رب سے جنت میں محلات لے کر دے گا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کے کھڑے ہو گئے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ کے لئے کسی آدمی سے ایک پائی لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ جتنی قیمت ہے تنہا عثمان اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ اسی مسجد پاک میں چند برس کے بعد جیش عسری کا واقعہ پیش آیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کی۔ مسلمانوں کے سوار ہونے کے لئے اونٹ تک موجود نہیں ہیں۔ رحمت کائنات نے اپنے منبر پہ کھڑے ہو کے کہا
کون ہے جو سو اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کرے؟ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔
اور لوگو! رک کر ایک بات سمجھ لو کہ رب ان مومنوں کے لئے آسمانوں کے دروازے