کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 15
تو آپ نے فرمایا اللہ ہمیں بھی یہاں جگہ عطا فرما دے۔ آپ کو امام مالک کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کی بے شمار خوبیوں میں سے جس خوبی کا ذکر اس وقت مقصود ہے وہ ہے آپ کی خطابت۔ آپ ایک نامور اور بے مثال خطیب تھے۔ خطابت کا شوق آپ کو بچپن سے ہی تھا اور اس کی وجہ آپ کا ماحول اور خاندانی حالات تھے۔ آپ کے گھر میں مولانا عطا اللہ شاہ بخاری کی خطابت کا چرچا تھا اور سیالکوٹ ویسے بھی احرار کا ایک مرکز تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا شوق بڑھتا گیا۔ مدینہ یونیورسٹی میں قیام نے آپ کے اس شوق کو جلا بخشی۔ حج کے ایام میں آپ باب السعود کے پاس کھڑے ہو کر اردو بولنے والوں کے لئے حج کے مسائل بیان کرتے اور اس طرح اپنے شوق کی تکمیل کیا کرتے تھے۔ یونیورسٹی کا ماحول عربی تھا اور آپ کو ویسے بھی عربی زبان و ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ آپ یونیورسٹی میں اس لئے بھی ممتاز حیثیت کے حامل تھے کہ عجمی ہونے کے باوجود عرب طالب علموں سے زیادہ عربی پر عبور حاصل تھا۔ چنانچہ وہیں پر آپ نے عربی میں خطابت کا آغاز کیا اور اس میں اتنا ملکہ حاصل کیا کہ آپ عربی کے بھی بے نظیر خطیب ٹھہرے۔ اس کی شہادت عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر مصطفی سباعی نے دی۔ ’’دوسری مرتبہ جب کہ مسجد نبوی کے باب السعود میں نماز مغرب کے بعد حسب معمول عربی میں تقریر کے لئے کھڑا ہوا آیات جہاد تلاوت کیں۔ فلسطین کشمیر قبرص اور اریٹیریا کے پس منظر میں اپنے ماضی کو آواز دی۔ بھیڑ بڑھتی اور آنکھیں بھیگتی چلی گئیں۔ سامنے شہنشاہ دو عالم اپنے دو سالاروں سمیت استراحت فرما۔ پڑوس میں ہی بائیں طرف جنت البقیع میں سلطنت روم و یونان کے روندنے والے اور ایران توران کو مسلنے والے محو خواب پیش منظر میں بنو قریظہ و بنو نضیر کی اولاد دھمکیاں؟ سسکیاں آہوں اور کراہوں میں بدل گئیں۔ ایک ماتم بپا ہو گیا۔ پورا حرم امڈ آیا۔