کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 145
کی تلاش میں نکلے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غریب آدمی تھے۔ دیکھا کہ مسجد کے ایک کونے میں مٹی پہ سوئے ہوئے ہیں۔ پاؤں کے ساتھ ٹھوکر لگائی۔ ناراضگی سے کہا قم یااباتراب آج یہ لقب عزت کے لئے استعمال کرتے ہو۔ سرور کائنات نے اسے ناراضگی کے طور پر استعمال کیا۔ او مٹی ملے ہوئے آدمی مٹی میں لیٹے ہوئے آدمی اٹھو۔ قم یا ابا تراب اٹھو ابو تراب۔ تراب مٹی کو کہتے ہیں۔ حضرت علی نے دیکھا نبی کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ کہا جاؤ ابوبکر وعمر و عثمان کوبلا کے لاؤ۔ یا رسول اللہ جھگڑا تو فاطمہ اور علی کا ابوبکر عمر عثمان کا کیا تعلق ہے؟ ان کا تعلق اربلی نے کشف الغمہ میں خوارزم نے مناقب میں ملا باقر مجلسی نے حیا القلوب میں بتلایا۔ ان کا تعلق یہ تھا کہ علی کا رشتہ مانگنے کے لئے یہی تینوں آئے تھے اور جب باپ کی بیٹی کو دکھ پہنچتا ہے تو شکو و شکایت ان سے کی جاتی ہے جو رشتہ مانگنے کے لئے آئے ہوں۔ کہا جاؤ ان کو بلا کے لاؤ جو تیرا رشتہ مانگنے آئے تھے۔ یہاں صرف ایک بیٹی دی۔ آئے۔ کہا بیٹھو۔ بیٹھ گئے۔ نبی نے طلحہ کو بلایا۔ ناد فی الناس الصلا جامعتہ جاؤ۔ مدینے کے لوگوں کو کہو سب اکٹھے ہو جاؤ۔ یارسول اللہ کیا بات ہے؟ وہ چہرہ جس پہ کبھی شکن نہیں پڑی۔ آج اتنا غصے میں۔ کہا سارے لوگوں کو بلاؤ۔ سارے لوگ اکٹھے ہوئے۔ آپ منبر پہ چڑھے‘ خطبہ دیا‘ رب کی ثناء کی‘ ابوبکر و عمر و عثمان کا تذکرہ کیا۔ کہا یہ لوگ میرے پاس علی کا رشتہ لے کر آئے تھے۔ میں نے اس کے افلاس کے باوجود اس کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا۔ ایک بندے کو شکایت نہیں کی۔ سارے مجمعے کو۔ اور کتاب میری نہیں تیری۔ یا اس کتاب کو پھاڑ ڈال یا اپنے عقیدے کو تبدیل کرلے۔ کتاب تیری۔ کہا سن لو