کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 144
سرورکائنات کا جگر کٹ گیا۔ پیار کرنے والا نبی۔ فرمایا۔ بیٹی جان بابا کیا ہوا ؟ بابا اب میں علی کے گھر جانے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مجھے اپنے ہی گھر رکھ لو۔ فرمایا بیٹی کیا ہوا ہے؟ کہا اللہ کے حبیب علی نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کر لیا ہے۔ میں ابو جہل کی بیٹی کے ساتھ اپنے سوکناپے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اٹھاؤ اپنی کتابیں۔ رحمت کائنات کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اور آج کہیں کی بات کہیں پہ لگاتے ہو۔ وہ بات جونبی نے اس موقعے پر کہی اس کو صدیق پر چسپاں کرتے ہو۔ حیا نہیں آتی۔ ان فاطمتہ بضعتہ منی من آذا ھا فقد آذانی کائنات کے لوگو سن لو فاطمہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے فاطمہ کو دکھ دیا اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دکھ دیا ہے۔ یہ کب کہا؟ تمہیں کچھ معلوم نہیں۔ سنیو قصے سنتے ہو‘ کہانیاں سنتے ہو اساطیر سنتے ہو افسانے سنتے ہو اور پلٹ کے آجاتے ہو۔ خدا ’’تمہیں‘‘ نفس جبرائیل دے تو کہوں خدا تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَہِیْدٌ،(سورۃ ق: ۳۷) کوئی دل والا ہو تو بات کو سمجھے۔ اقبال نے کہا تھا تمدن‘ تصوف‘ شریعت‘ کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی روایات کا نام دین اور خرافات کا نام حقیقت رکھ لیا ہے۔ کہاں کی بات کو کہاں پہ جوڑ کے صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر طعن کرتے ہو۔ من اذاھا غصے سے نکلے اور آج یہ بات بھی سن لو۔ کبھی کسی نے نہ بتلائی ہوگی۔ علی