کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 143
عثمان کا گھر کونسا گھر ہے؟ جس میں حسین کی خالائیں آئی ہیں۔ جس گھر میں خالہ آئے اس میں بھتیجی کو جاتے ہوئے کیا ڈر ہے؟ تم نے چودہ سو سال بعد دشمنی کی داستانیں گھڑی ہیں۔ اگر شرف منقبت کی بات بیٹی کے ناطے سے ہے تو آؤ اس کے بارے میں کیا کہتے ہو جس کو نبی نے اپنی دو بیٹیاں عطا کی ہیں؟ دوسری بیٹی بھی فوت ہوگئی عثمان کی دوسری بیوی بھی فوت ہوگئی۔ آج پھر آنسوؤں کی بارش ہو رہی ہے۔ کائنات کا امام آیا۔ عثمان پہ نگاہ ڈالی۔ فرمایا عثمان محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) تیری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ سر کو اٹھاؤ نبی تجھ پہ اتنا راضی ہے کہ کعبہ کے رب کی قسم اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی چالیس بیٹیاں ہوتیں یکے بعد دیگرے تجھ کو دیتا جاتا انکار نہ فرماتا۔ تو نے اتنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ بیٹی کی بنیاد پر ہی تم نے سارا مسئلہ کھڑا کیا ہے ناں۔ یہاں چالیس بیٹیوں کی بات ہو رہی ہے۔ اللہ تو ہم کو معاف کر دے۔ ہم اس بات کو کرنا نہ چاہتے تھے اگر یار ہم کو کرنے پر مجبور نہ کرتے۔یہاں دو بیٹیاں دیں اور اتنے راضی کہ باقی بیٹیاں اگر ہوتیں تو دینے کا اقرار فرما رہے ہیں اور وہاں صرف ایک بیٹی دی بس۔ آج بات آگئی ہے تو سن لو۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں جو گستاخی کرے ہمارے نزدیک اس کا ایمان ناقص ہے۔ تم نے ہمیں تقابل کے لئے مجبور کیا ہے وگرنہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ساری کائنات میں صدیق فاروق اور ذوالنورین کے بعد سب سے افضل اگر کوئی ہستی ہے تو علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ سب سے افضل ہیں مگر ان تینوں کے بعد پہلے نہیں۔ اس کو دو دیں اس نے زندگی میں کبھی شکایت کا موقعہ نہیں دیا۔ اتنے خوش کہ بیٹی کے مرنے کے بعد کہا اگر چالیس ہوتیں تو یکے بعد دیگرے دیتا جاتا انکار نہ کرتا۔ اور یہاں ایک دی اور کتاب تیری علل الشرائع ابن بابویہ قمی کی کشف الغمہ اربلی کی حیا القلوب ملا باقر مجلسی کی کتاب الخصال ابن بابویہ قمی کی۔ یہاں ایک دی اور ایک دن آیا کہ فاطمہ اپنے کندھے پہ حسن کو رکھے اپنے انگلی سے حسین کو لگائے روتے ہوئے اپنے بابا کے گھر آگئی۔ بابا۔ فاطمہ کی چیخ کی آواز سنی