کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 14
اختیار نہ کیا۔
ابتداء میں آپ میو ہسپتال میں زیر علاج رہے اس دوران سعودی عرب اور عراق کی طرف سے آپ کے علاج کی پیش کش کی گئی۔ ریاض اور بغداد کے ہوائی اڈوں پر طیارے آپ کے لئے تیار تھے لیکن سعودی عرب کو ترجیح دی گئی اور ۲۸ مارچ کو آپ کو سعودی عرب کے خصوصی طیارے کے ذریعے ریاض لے جایا گیا۔ دوران سفر آپ کی حالت ٹھیک تھی لیکن وہاں جا کر خراب ہو گئی۔ آپ کے خون کا دباؤ کم ہونا شروع ہو گیا اور ۳ مارچ کو فجر کی نماز کے وقت آپ خون کے دباؤ کی شدید کمی کے باعث انتقال فرما گئے۔ آپ کے انتقال کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ آپ کو جنت البقیع میں ہی دفن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ریاض میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ آپ کے استاد اور عالم اسلام کی نامور شخصیت الشیخ عبد العزیز بن باز نے پرھائی۔ آنسوؤں اور سسکیوں میں آپ کا جنازہ پڑھا گیا۔ لوگ پرنم آنکھوں سے آپ کے لئے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔ اس دوران ذرائع ابلاغ سے یہ اعلان کیا جا چکا تھا کہ نماز مغرب کے بعد مسجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس عاشق رسول کا دوبارہ نماز جنازہ ہو گا اور جنت البقیع میں تدفین کی جائے گی۔ چنانچہ آپ کی میت ریاض سے مدینۃ النبی لائی گئی۔ مغرب کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں بے شمار لوگوں نے شرکت کی۔ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو کہ امڈا ہوا تھا اور لوگوں کی اکثریت صرف ہجوم کے انتہائی زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ کا آخری دیدار بھی نہ کر سکی۔ مسجد نبوی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور لوگوں کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے صفوں کی ترتیب خراب ہو چکی تھی۔ مسجد نبوی کے امام عبد اللہ زاھم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ لوگ زار و قطار رو رہے تھے۔ آہوں اور سسکیوں سے مسجد گونج رہی تھی اور وہ عاشق رسول دوستوں کی محبتوں اور دشمنوں کی عداوتوں سے بے نیاز ابدی نیند سو رہا تھا۔ تاریخ کا ایک روشن باب ختم ہو چکا تھا۔ آپ کو جنت البقیع کے اس حصے میں دفن کیا گیا جس حصے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں تھیں۔ اس طرح اللہ نے آپ کی وہ دعا بھی پوری فرما دی جو آپ نے شہادت سے چند سال پیشتر مانگی تھی کہ جب ایک جنازے کی بقیع میں تدفین ہوئی