کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 132
نہج البلاغتہ کے اندر لکھا دنیا سے اس طرح گیا ہے کہ اس کی چادر پہ ایک دھبہ بھی موجود نہیں ہے۔ دنیا اس کے عیب کو تلاش کرے تو کوئی عیب اس پہ نہیں ہے۔
قوم الاود
یہ وہ آدمی تھا جس نے ٹیڑھوں کو سیدھا کیا اور سیدھوں کو صراط مستقیم پہ گامزن کیا۔ کیا کہا ؟
اقام السنہ خلف الفتنۃ
او تمہاری سب سے مقدس کتاب نہج البلاغہ کے الفاظ ہیں۔ کہا
اقام السنۃ
جب تک زندہ رہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قائم رکھے رہا۔
خَلَفَ الْفِتْنَۃَ (نہج البلاغہ ص:۳۵۰)
جب تک زندہ رہا فتنے کی سرکوبی کرتا رہا۔
یہ ہیں علی کے الفاظ جو اس نے حضرت فاروق اعظم کی نعش مبارک پہ کھڑے ہو کے کہے اور پھر کیا کہا؟
تمہاری کتاب کے الفاظ ہیں۔ کہا اللہ میں علی تیری بار گاہ میں سوال کرتا ہوں کہ اللہ مجھ کو بھی ایسا کر دے جس طرح سفید چادر میں لپٹا ہوا عمر ہے۔ علی دعا مانگ رہا ہے اللہ مجھ کو بھی عمر جیسا بنا۔ او علی تو دعا مانگے کہ اللہ مجھ کو عمر جیسا بنا دے اور تو کہے کہ علی اور عمر کے درمیان دشمنی تھی۔
سن لو یہ سارے افسانے ان لوگوں کے تراشے ہوئے ہیں جن کا نہ علی سے کوئی تعلق ہے نہ حسین سے نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے کوئی تعلق ہے نہ نبی کی شریعت سے۔یہ سارے افسانے ہیں وگرنہ اہل بیت اور فاروق کے درمیان اس قدر تعلقات تھے کہ جب فاروق نے علی المرتضی سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو علی نے کہا عمر یہ تو بہت چھوٹی ہے تو فاروق اعظم نے کہا علی میں نے عورت کی خواہش کی وجہ سے رشتہ نہیں مانگا میں نے تو صرف اس لئے رشتہ مانگا ہے کہ میرا نام بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں داخل ہو جائے۔ علی نے لمحے بھر کے لئے اعتراض نہیں کیا۔ کہا میرے لئے اس سے بڑے فخر کی بات کیا ہے کہ عمر جیسا شخص میرا داماد ہو۔ رضی