کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 131
چنانچہ رب نے نبی کے شہر میں نبی کی مسجد میں شہادت کی موت عطا کی اور ایک آتش پرست مجوسی کے ہاتھ سے ملی۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے کہ خون بہت زیادہ بہہ گیا۔ جب ہوش آئی عصر کی نماز کا وقت تھا۔ کئی گھنٹے بے ہوشی کے بعد آنکھ کھلی۔ زخم انتہائی چوڑا زہر میں بجھا ہوا خنجر جسم کا سارا خون بہہ چکا ہے۔ آنکھ کھولی دیکھا کہ نماز عصر کا وقت ہے۔ فرمایا کونسی نماز کا وقت ہے؟ کہنے لگے عصر کی نماز کا۔ کہا جلدی سے مجھے وضو کرواؤ کہیں میری نماز فوت نہ ہو جائے۔ اس قدر اسلام سے وابستگی تھی۔ پھر رو پڑے کہا مسلمانو تم گواہ رہنا کہ میں نے اپنی زندگی میں جتنی دیر تک مسلمانوں پر حکومت کی ہے ایک پیسے کی جائیداد مسلمانوں کے مال سے نہیں بنائی۔ کوئی پھوٹی کوڑی بھی میرے گھر میں نہیں ہے۔ میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کا حاکم نہیں سمجھا۔ مسلمانوں کا چوکیدار سمجھا ہے اور مسلمانو تم اس بات کے گواہ رہنا کہ سرور کائنات جب اس کائنات سے رخصت ہوئے تو وہ مجھ سے راضی تھے اور الحمد اللہ اس دنیا سے جاتے ہوئے میرے ضمیر پہ کوئی بوجھ نہیں کہ میں نے کسی سے ذاتی طور پر کسی قسم کی عداوت یا مخالفت رکھی ہو اور اس سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ گردن ڈھلک گئی۔ حضرت علی کو پتا چلا ۔ ایک سفید چادر تھی جس کے ساتھ آپ کے جسم اطہر کو ڈھانپ دیا گیا۔ شیعہ بھائیوں کی کتاب کتاب الشافی طوسی کے اندر لکھا ہے شارح نہج البلاغہ شیعہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں دونوں شیعہ مورخ کہا حضرت علی کو پتہ چلا فاروق اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بھاگے ہوئے آئے اور فاروق کو چادر میں لپٹا ہوا دیکھا۔ شیعہ بھائی لکھتے ہیں اس طرح بلک بلک کے رونے لگے جس طرح ماں کی چھاتی سے ننھے بچے کو جدا کیا جائے وہ روتا ہے۔ لوگوں نے کہا علی اتنا کیوں روتے ہو ؟ نہج البلاغتہ میں لکھا کتاب الشافی طوسی میں بھی لکھا ہے۔ کہا اس لئے روتا ہوں کہ فاروق ایسی زندگی گزار کے گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسی زندگی گزار سکتا ہی نہیں ہے۔ ذھب نقی الثوب قلیل العیب