کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 130
خطبہ ثانیہ خطبہ مسنونہ کے بعد: حضرت فاروق اعظم کی شہادت اسی ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو ہوئی۔ اصل میں دنیا بھر کے کفر کو اس بات کا اندازہ تھا کہ جب تلک فاروق زندہ ہے دنیا بھر میں کفر کہیں بھی اسلام کے سامنے سر بلند کر کے کھڑا نہیں ہو سکتا اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے ایک ہی اس کی تدبیر ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح اسلام کی اس تلوار بے نیام کو توڑ دیا جائے اسلام کی اس شمع کو گل کر دیا جائے اسلام کے اس چمکتے ہوئے تارے کو غروب کر دیا جائے‘ اسلام کے اس ضو فشاں چراغ کو بجھا دیا جائے چنانچہ ایران کے مجوسیوں نے کافر طاقتوں سے سازش کر کے ابو لولو مجوسی آتش پرست کو اس بات پر مجبور کیا مامور کیا کہ تم کسی طرح چھپ کر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کے چراغ کو گل کر دو۔ چنانچہ ایک دن جب فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نماز فجر کے لئے صبح صبح اندھیرے منہ مسجد میں تشریف لائے اس نے زہر میں ڈبوئے ہوئے خنجر سے آپ کے اوپر وار کیا آپ زخمی ہو کے گرے سب سے پہلا جو سوال کیا وہ یہ تھا لوگو مجھے یہ بتلاؤ کہ میرا قاتل کون ہے ؟ لوگوں نے کہا ایک آتش پرست مجوسی ہے۔ کہا الحمد اللہ میری موت کسی مسلمان کے ہاتھوں واقع نہیں ہوئی ہے اور پھر کہا مسلمانو میں رب سے ہمیشہ دعا مانگا کرتا تھا اللہ مجھے شہادت کی موت عطا کر اور اپنے نبی کے شہر میں عطا کر اور لوگ پوچھتے تھے عمر اسلام کی سرحدیں تو مدینے سے ہزاروں میل دور پہنچ گئیں۔ تجھے شہادت کیسے مل سکتی ہے؟ یا شہادت نہ مانگو یا نبی کا شہر نہ مانگو تو میں ہمیشہ کہا کرتا تھا عرش والے خدا تیرے نزدیک کون سی بڑی بات ہے کہ جب وقت آئے تو نبی کے شہر میں آئے اور شہادت کے نتیجہ میں آئے۔ اللہ کی بارگاہ میں کون سی چیز مشکل ہے؟