کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 13
کے دور حکومت میں آپ کو پنتالیس سے زیادہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن میں قتل کے مقدمات بھی شامل تھے۔ جب اصغر خان نے تحریک استقلال کو پی ۔ این ۔ اے سے علیحدہ کر دیا تو آپ بھی تحریک سے علیحدہ ہو گئے۔
ضیاء الحق نے آغاز میں اسلام کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا جس سے دینی جماعتیں ضیاء الحق کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہو گئیں اور یہ فطری بات تھی کیونکہ انہوں نے بھٹو کا دور دیکھا تھا جو جبر کا دور تھا استبداد کا دور تھا جبکہ ضیاء الحق اپنے آپ کو ایک اسلام پسند جرنیل کے طور پر سامنے لایا اور علماء کا قدر دان ظاہر کیا۔ لیکن صاحب بصیرت علماء اس کے مکر و فریب اور کذب و افتراء سے بہت جلد آشناء ہو گئے ان میں سرفہرست حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید تھے۔ آپ ابتداء میں علماء کی مشاورتی کونسل کے رکن بنے لیکن ضیاء الحق کی حقیقت کو جان کر سب سے پہلے آپ نے کونسل سے استعفی دیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنی تقریروں میں ضیاء الحق کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا اور اس سلسلے میں کمال جرات کا مظاہرہ کیا حتی کہ آپ اس جرم میں شہادت کے مرتبے پہ فائز ہو گئے۔ آپ نے اپنی تقریروں خصوصا جلسہ ہائے عام میں ضیاء الحق کے خلاف بڑا سخت لب و لہجہ اپنایا۔ آپ نے اس دور میں حق کا علم بلند کئے رکھا جب بڑے بڑے جغادری سیاست دان ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ واقعتا آپ کی تقریروں سے جمہوریت پسندوں کو حوصلہ ملتا تھا اور وہ جمہوریت کی جدوجہد کے لئے اپنے اندر ایک نیا ولولہ ایک نیا جوش اور ایک نیا جذبہ محسوس کرتے تھے۔ آپ کی اس حق گوئی سے گھبرا کر حکمرانوں نے وہی طریقہ اختیار کیا تھا جو ان سے پہلوں نے احمد ابن حنبل اور ابن تیمیہ کے ساتھ کیا۔ اس دور میں بھی آپ پر بے شمار مقدمات بنے۔ آپ کو ٹیکسوں کے چکر میں الجھایا گیا۔ آپ غیر ممالک کے دورے پر ہوتے اور پاکستان واپسی پر آپ کے خلاف مقدمات بنے ہوئے ہوتے۔ آپ کی جائیداد کی قرقی کے مقدمات بنائے گئے لیکن آپ نے کلمہ حق کہنے سے گریز نہ کیا۔ حتی کہ حکمران مجبور ہو گئے کہ حق کی آواز کو خاموش کئے بغیر چارہ نہیں۔ چنانچہ ۲۳ مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر اس آواز کو خاموش کر دیا گیا جس نے ہر دور کے طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس کا مقابلہ کیا جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کو بلند کیا اور کبھی بھی مداہنت کا راستہ