کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 128
کہا فاروق تیرے عدل سے حیاء آئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سے حیاء آئی ہے کہ یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہے اور گورنری کے سامنے سر نیچا نہیں کیا۔ اپنی گردن کو رب کے حکم پہ جھکا دیا میں نے معاف کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سمجھ کیچھوڑ دیا۔ فرمایا کعبے کے رب کی قسم اگر آج تو اس کو معاف نہ کرتا ساری کائنات دیکھتی کہ میں فاتح مصر کو بھی اسلام کے اندر رخنہ اندازی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میرے ہوتے ہوئے کسی غریب پر ظلم نہیں ہو سکتا۔ ہم کہاں سے مثال لائیں؟ اس حکمران کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں جس پہ مجمع عام میں اٹھ کے اعتراض کیا جائے اور اس کی پیشانی پہ شکن نہ پڑے اور اعتراض بھی ذاتی۔ سب کو مال غنیمت سے ایک ایک چادر آئی کسی کا کرتا نہیں بنا۔ تو سب سے لمبا ہے تیرا کرتا کہاں سے بن گیا ہے؟ آج نیا کرتا پہن کے منبر پہ آکے کھڑا ہو گیا ہے۔ نہیں سنتے تیرا خطبہ۔ ہائے تنا ہیبت والا بادشاہ کہ کسری ایران کا شہنشاہ اپنی مملکت کے محل کے اندر بیٹھ کے کہتا ہے میرے سامنے عمر کا نام نہ لیا کرو میرے کندھے کپکپانے شروع ہو جاتے ہیں۔ اتنا ہیبت والا بادشاہ اور ایک معمولی آدمی اٹھ کے کہتا ہے۔ نیچے اترو خطبہ دینے کھڑے ہو گئے ہو۔ آج نئی قمیض لی ہے کہاں سے لی ہے ؟ پہلے یہ بتلاؤ۔ یہ نہیں کہا مارشل لاء کے تحت اس کو گرفتار کر لو اس پہ مارشل لاء آرڈیننس لگا دو ۵) ایم پی او لگا دو۔ سامنے تو کسی مولوی کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی۔ مولوی تو جاتے ہی وہ ہیں جو گھر سے سجدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں پیچھے بھی کوئی بات کر دے چھوڑتے نہیں ہیں۔ نبی کا یار حوض کوثر کا ساتھی جنت میں اٹھنے والا اسلام کے جھنڈے کو کائنات کے کناروں تک پہنچانے والا ایک ادنی شخص کے اعتراض پہ منبر سے نیچے اتر آیا۔ کہا مجمع میں میرا بیٹا موجود ہے ؟ عبد اللہ اٹھ کے کھڑے ہوئے کہا بابا موجود ہوں۔ فرمایا اپنے باپ کی صفائی بیان کرو۔ کعبے کے رب کی قسم اگر مومن کی صفائی نہ ہوئی تو عمر قیامت تک نبی کے منبر پہ قدم نہیں رکھے گا۔ اعتراض کیا گیا صفائی بیان کرو۔ رو پڑے اور کہا لوگو میرے باپ کا ایک ہی کرتا تھا