کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 127
میرے ساتھ گھوڑا دوڑایا۔ میرا گھوڑا آگے نکل گیا۔ اس جرم پہ مجھ کو مارا ہے۔ حکم دیا جاؤ عمرو ابن العاص کے بیٹے کو پکڑ کے لاؤ۔ گورنر کے بیٹے کو۔ گورنر فاتح مصر کے بیٹے کو اور یہی کہا ؟ جانے والے رک جا۔ امیر المومنین کیا حکم ہے ؟ فرمایا بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کو بھی گرفتار کر لے لاؤ۔ مصر کے گورنر کو بھی گرفتار کر لے لاؤ۔ دونوں گرفتار کر کے لائے گئے۔ غریب کے بیٹے کو کہا اٹھو باپ کو بھی مارو اور بیٹے کو بھی مارو اور اسی طرح مارو جس طرح انہوں نے تم کو مارا تھا۔ آسمان حیران‘ زمین ششدر‘ دنیا نے کبھی ایسا منظر بھی دیکھا ہے ؟ آج بھی اسلام کے نظام کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کسی معمولی میجر کو بھی دنیا کی بڑی سے بڑی عدالت میں طلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک کا قانون یہ ہے کہ کسی فوجی کو کسی سپریم کورٹ میں بھی طلب نہیں کیا جا سکتا۔ مستثنی ہیں۔ اسلام اس کا نام ہے کہ کوئی مستثنیٰ نہیں۔ پکڑ کے لائے مارو اس کو بھی مارو اس کے بیٹے کو بھی مارو۔ حضرت ابن العاص کہنے لگے امیر المومنین میں نے اپنے بیٹے کی سفارش تو نہیں کی۔ اس نے اگر جرم کیا ہے اس کو سزا ملنی چاہئے۔ اس کو مارئے میں نے کیا جرم کیا ہے ؟ مجھے کیوں مارتے ہیں ؟ فرمایا تونے یہ جرم کیا ہے کہ ایسے بیٹے کی تربیت نہیں کی ہے۔ اس کو مارنے کی جرات کیوں ہوئی ؟ اس نے جرات اس لئے کی کہ سمجھتا ہے گورنر کا بیٹا ہوں۔ گورنر کے بیٹا ہونے کی وجہ سے مارا۔ اس لئے میں اس کو بھی مرواؤں گا گورنر کو بھی مرواؤں گا جس کی گورنری نے اس کو جرات بخشی ہے۔ مارو گردن کو جھکا دیا امیر المومنین ٹھیک کہا ہے مجھ کو مارئیے۔ ہائے غریب کے بیٹے نے اپنی لاٹھی نیچے پھینک دی۔ اس نے کہا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں عمر جیسا آدمی موجود ہے غریب پہ ظلم نہیں ہو سکتا۔ امیر المومنین نے کہا لاٹھی کیوں پھینکی ہے ؟