کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 126
جائے پھر دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو جائے اور پھر وہ دن آئیں کہ بادشاہ اپنے محلات میں بیٹھ کے یہ سوچیں کہ عمر کے ہوتے ہوئے معمولی سی بھی اسلام کی مخالفت کی تو عمر ہماری چمڑی کو ادھیڑ کے رکھ دے گا۔ انصاف کا وہ بول بالا ہو کہ غریب کا بچہ بھی یہ سمجھے کہ کسی بڑے سے بڑے آدمی نے اگر مجھے دکھ دیا تو اس کو میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو کر سزا دلوا سکتا ہوں۔ کس کے دور میں ؟ اس کے دور میں جس کے زمانے میں مصر کے گورنر اور وہ گورنر جو مصر کا فاتح تھا۔ آج بھی گورنر موجود ہیں۔ یہ ہمارے فاتح ہیں۔ انہوں نے ہم کو فتح کیا ہے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ سو تمغے لگائے ہوئے ہیں۔ پوچھو یہ تمغے کہاں سے لئے ہیں ؟ کس ملک کو فتح کیا ہے ؟ کہتے ہیں اپنی قوم کو فتح کیا ہے۔ یہ بھی ہیں‘ گورنر بھی‘ صدر بھی‘ حاکم بھی‘ حکمران بھی سب ہیں لیکن عمر کے دور میں وہ گورنر تھا جس نے ملک مصر کو فتح بھی خود کیا تھا۔ عمر کا تذکرہ ایک خطبہ جمعہ میں کیسے سمٹے ؟ کئی خطبات جمعہ گذر جائیں تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ ختم نہیں ہو سکتا ۔ اگر عمر کا نام اسلام کی تاریخ سے نکال دیا جائے تو اسلام کی تاریخ کا کوئی سر پیر ہی نہیں رہتا۔ گورنر جو فاتح بھی ہے اس کے بیٹے نے ایک غریب کے بیٹے سے گھڑ دور میں شرکت کی۔ گھوڑا دوڑایا ہوا تھا غریب نے بھی گھوڑا دوڑانا شروع کر دیا۔ ضد لگ گئی۔ غریب کا گھوڑا آگے نکل گیا۔ گورنر کے بیٹے کو اور کوئی نہ سوجھی بس نہ چلا۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور غریب کے بیٹے کے سر پہ دے مارا۔ وہ ملک مصر سے اسی گھوڑے پہ سوار چلا۔ مدینے کا رخ کر لیا۔ گھر نہیں گیا سیدھا مدینے آیا۔ اے عمر! تو اسلام کا نائب رسول اللہ کا خلیفہ ہے۔ تیرے ہوتے ہوئے ایک غریب کی آبرو مٹ جائے ؟ کہا کیا ہوا ہے ؟ کہا مصر کے گورنر عمرو ابن العاص کے بیٹے نے مجھ کو مارا ہے۔ کیوں مارا ہے ؟