کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 125
طرح اپنی گود میں بٹھا لیا جس طرح باپ اپنے چھوٹے بچے کو بٹھا لیتا ہے۔ بٹھایا اپنے سینے سے لگایا اور سب سے پہلے اسلام کے اندر نعرہ تکبیر جو لگا اس دن لگا جب عمر نے ایمان کو قبول کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی گود میں بٹھایا۔ نبی پاک نے کہا اللہ اکبر صحابہ نے جواب دیا اللہ اکبر۔ کفار نبی کے سر کے منتظر تھے۔ جب تکبیر کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ عمر کے دل کی کائنات میں انقلاب آگیا ہے وگرنہ نعرہ لگانے کی ہمت ؟ چوما کہا عمر میں نے رات مانگا تھا اللہ اسلام کمزور ہے اسے عمر سے طاقتور بنا دے اور عمر رضی اللہ عنہ کیا کہتا ہے ؟ کہا آقا میری ایک آرزو ہے۔ فرمایا کہو کیا کہتے ہو؟ تم ہماری مراد بن کے آئے ہو بتلاؤ تمہاری آرزو کیا ہے ؟ کہا آقا جی چاہتا ہے کہ آج تلک زید ابن ارقم کے گھر میں چھپ کر نماز پڑھتے رہے۔ آج نکلئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مصلے پہ کھڑا ہوگا صحابہ پیچھے کھڑے ہوں گے عمر چوکیداری کر رہا ہو گا۔ میں دیکھتا ہوں کس کو جرات ہے ٹوکنے کی ؟ اسلام کی تاریخ میں پہلا دن ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھلے بندوں کعبہ کی چوکھٹ کے سامنے کعبہ کے صحن کے اندر کھڑے ہو کر اپنے صحابہ کی معیت میں نماز ادا کی۔ کہا کون ہے جو آئے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے سے ٹوکے اور میرے ہوتے ہوئیکون جرات کرے ؟ یہ عمر تھا جس نے نبی کی زندگی میں اسلام کو زید بن ارقم کے گھر سے نکالا۔ کعبتہ اللہ کے صحن میں کھڑا کیا اور یہ عمر تھا جس نے نبی کی وفات کے بعد اسلام کو مدینہ اور جزیرہ عرب کی چار دیواری سے نکالا اور ایران اور روم کی سرحدوں تک پہنچایا۔ یہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا اور اسی لئے برناڈشا نے کہا اگر اسلام کی تاریخ میں ایک اور عمر ہو جاتا تو روئے زمین پہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دین کے سوا کوئی دوسرا دین نہ ہوتا اور آج اللہ ہم کو کسی عمر کی ضرورت ہے۔ آج الحاد ہے‘ فساد ہے‘ بے دینی ہے‘ ارتداد ہے‘ صحابہ دشمنی ہے‘ اسلام دشمنی ہے‘ کفر دوستی ہے‘ بزدلی ہے‘ بے غیرتی ہے‘ بے حمیتی ہے‘ ملک غیر محفوظ ہے‘ سرحدیں خطرے میں ہیں۔ اللہ سب کچھ ہے لیکن مومنوں کو ایک اور عمر عطا فرما تاکہ پھر تیرا دین طاقت ور ہو