کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 124
ادھر نبی کائنات( صلی اللہ علیہ وسلم ) زید ابن ارقم کے گھر تشریف فرما ہیں۔ مکے میں خبر پھیل چکی ہے کہ آج عمر ننگی تلوار لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون بہانے کے لئے آرہا ہے۔ صحابہ پریشان ہیں۔ آج کیا ہو گا؟
عمر ننگی تلوار لئے ہوئے آرہا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ نبی کے چچا بھی ہیں اور نبی کے دودھ شریک بھائی بھی ہیں۔ نبی کے ہم عمر بھی ہیں دوستی بھی ہے ۔ ان کو پتہ چلا بھاگے ہوئے آئے کہا میرے بھتیجے میری جان آپ پہ نچھاور ہو۔ جب تک میں زندہ ہوں عمر آپ تک نہیں پہنچے گا۔ سرور کائنات کے چہرے پر اطمینان ہے۔ صحابہ پریشان ہیں۔ نبی مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں۔ قافلہ چلتا ہے۔ آگے آگے سعید ابن العاص پیچھے پیچھے عمر کی بہن اور ایک پلو عمر کی بہن نے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا اور دوسرے پلو سے عمر کے ہاتھ بندھے ہوئے اور ان کے پیچھے قرآن کا قاری چلا آرہا ہے۔ قافلہ زید ابن ارقم کے گھر کی طرف چلا۔ دروازہ بند ہے۔ ایک صحابی نے اوٹ سے جھانک کے دیکھا۔ اس کی نگاہ نہ سعید پہ پڑی نہ فاطمہ پہ پڑی نہ قاری پہ پڑی صرف عمر پہ پڑی۔ کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر آگیا ہے۔ ایک صحابی آگے بڑھ کے زنجیر بند کرنے لگا۔ محبوب رب العالمین نے کہا زنجیریں کھول دو دروازہ کھول دو۔ رات کو میں نے عمر اپنے رب سے مانگا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عمر آ نہیں رہا عرش والا اس کو میرے پاس لا رہا ہے۔ ہٹ جاؤ دروازے سے۔ عمر اندر داخل ہوئے حدیث پاک میں آیا ہے نبی اپنی جگہ سے اٹھے جلدی سے جا کے عمر کا گریبان تھاما فرمایا
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ. (سورۃالحدید:۱۶)
او عمر ضی اللہ عنہ ! ابھی وہ دن نہیں آیا کہ رب کا ایمان رب کا قرآن تیرے سینے میں سوراخ کر دے؟
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی گردن کو جھکایا۔ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تیرے خون کا پیاسا بن کے نکلا تھا اور جب تیرے دروازے پہ پہنچا ہوں تو تیری غلامی اور چاکری کے لئے پہنچا ہوں۔ مجھ کو اپنی چاکری کے لئے قبول کر لو۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے آگے بڑھ کر عمر کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ عمر ضی اللہ عنہ ! تیرے نصیبے کا کیا کہنا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ نبی نے عمر کو اس