کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 122
حدیث میں آیا ہے کہ جب عمر گلی سے گذرا کرتے تھے بچے ڈر کے اپنی ماؤں کی گودوں میں گھس جایا کرتے تھے۔ اتنی دہشت‘ اتنا دبدبہ‘ اتنا جلال‘ اتنی ہیبت‘ اتنا رعب اور طاقت کا عالم یہ تھا کہ مورخین نے لکھا ہے ایک دفعہ عمر کی طاقت کی آزمائش کے لئے لوگوں نے چمڑے کو گیلا کر کے عمر کے پاؤں کے نیچے رکھا۔ ساٹھ آدمیوں نے کھینچا چمڑہ نیچے سے پھٹ گیا لیکن عمر کی ٹانگ کے نیچے سے باہر نہیں نکلا۔ اس قدر طاقت تھی۔ اتنے دلیر‘ اتنے شجاع اور حدیث میں آیا ہے اتنے اونچے لمبے تھے کہ اگر سارے لوگ بیٹھے ہوتے اور عمر بھی بیٹھے ہوئے ہوتے دیکھنے والا محسوس کرتا لوگ بیٹھے ہوئے ہیں عمر کھڑا ہے ۔ اتنے اونچے لمبے تھے کہ اگر لوگ سوار ہوتے اور عمر پیدل ہوتے عمر کا قد سواروں سے اونچا نظر آتا تھا اس قدر ہیبت‘ دبدبہ‘ رعب و جلال اور بہن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہتی ہے ہاں قرآن پڑھ رہے تھے۔ فرمایا کون سا قرآن ؟ کہا وہ قرآن جو رب العالمین نے رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔ غصہ آیا تلوار اٹھائی سعید ابن العاص کو دیکھا کہا تونے میری بہن کو گمراہ کرنے کا ارادہ کیا۔ تلوار چلائی۔ بہن شیرنی کی طرح جھپٹ کر آگے آگئی کہنے لگی۔ بزدل بہنوئی پہ وار کرنے سے پہلے بہن کی گردن کاٹو۔ پھر سعید پہ حملہ کرنا۔ اس پر حملہ کرتے ہیں۔ تلوار پھسلتی ہوئی پیشانی کو چھو کے نکل گئی۔ بہن کی پیشانی سے بہتے ہوئے خون کو دیکھا دل ہل گیا۔ پھر جرات دیکھی کہ زخمی ہونے کے باوجود تن کے کھڑی ہے۔ پہلے مجھے شہید کرو بعد میں میرے خاوند پہ ہاتھ اٹھانا۔ سوچا کہ ساری زندگی جو بہن سامنے بولنے کی جرات نہیں کر سکی کون سی قوت نے اس کو میرے سامنے کھڑا کر دیا ہے؟ تلوار جھک گئی کہنے لگے تجھے اتنی جرات کس نے عطا کی؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ اترے ہوئے قرآن نے عطا کی۔ کہا وہ قرآن مجھے بھی پڑھ کے سنا سکتی ہو؟ مجھے بھی چند آیتیں سنا دو۔ اللہ اکبر۔ قاری کو بلایا۔ اس نے سور طہ کی آیات کی تلاوت کی۔