کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 121
نویں صدیق اکبر تھے دسویں ابو عبیدہ ابن الجراح تھے۔ رضی اللہ عنھم اجمعین۔ صدیق بھی وفات پا چکے ابو عبیدہ ابن جراح بھی اس کائنات سے رخصت ہو چکے تھے۔ آٹھویں خود باقی سات اور خلافت کے لئے کمیٹی بنائی ان لوگوں پر جن کا نام لے کے نبی نے انہیں جنت کی بشارت عطا فرمائی۔ لیکن ان میں سے ساتویں آدمی کو نکال دیا۔ او کل کتنے تھے؟ سات۔ کمیٹی بنائی چھ پر۔ ساتویں کو ان میں نہیں رکھا۔ لوگوں نے کہا فاروق عشرہ مبشرہ میں سے باقی لوگوں پر کمیٹی بنا رہے ہو۔ باقی سات بچے ہیں خلافت کے لئے تم نے چھ آدمی نامزد کئے۔ ساتواں کیوں نہیں رکھا؟ فرمایا خدا سے حیا آتی ہے کہ اللہ کہے گا اپنے بہنوئی کو بھی بیچ میں رکھ آئے تھے۔ باتیں کرتے ہو۔ جاؤ کائنات میں کوئی ایسا بے نفس دکھاؤ۔ ایسا بے نفس انسان جس نے اپنے بہنوئی کو عشرہ مبشرہ میں سے ہونے کے باوجود صرف اس لئے نکال دیا کہ وہ اس کی بہن کا شوہر ہے۔ آنے والی نسل یہ نہ کہے کہ خلافت میں اپنے گھر کے بندے کو بھی شریک کر لیا تھا۔ تم اس پر اعتراض کرتے ہو۔ یہ سعید ابن العاص ہے۔ ان کے گھر گئے۔ دروازہ بند ہے کان لگایا اندر سے کچھ پڑھنے کی آواز آئی۔ پریشان ہوئے دستک دی اندر سے پوچھا گیا کون ہے؟ کہا خطاب کا بیٹا عمر ہوں۔ سعید ابن العاص پہ لرزہ طاری ہو گیا۔ لیکن خطاب کی بیٹی عمر کی بہن شیرنی کی طرح اٹھی۔ اس قاری قرآن کو جو قرآن پڑھانے کے لئے آیا تھا اندر چھپایا۔ دروازہ کھولا‘ عمر کو دیکھا ننگی تلوار ہاتھ میں لئے پیشانی پہ شکنیں ڈالے۔ بہنوئی بھی پریشان بہن بھی حیران کہ ماجرا کیا ہے۔ کہا کیا پڑھ رہے تھے ؟ سعید ابن العاص بات کرنے لگے بہن آگے بڑھ گئی۔ کہنے لگی قرآن پڑھ رہے تھے۔ زندگی میں بہن کو کبھی آنکھ ملانے کی جرات نہیں ہوئی یہ تو بہن تھی حضرت عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں مکہ کے کسی آدمی کو عمر سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔