کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 119
والے کے نہیں۔ ناطق وحی کے الفاظ ہیں۔ اللھم اید الاسلام اے اللہ اسلام کو طاقتور بنا۔ کس کے ساتھ ؟ بعمر بن الخطاب عمر کے ساتھ اسلام کو طاقت دے۔ نبی نے دعا مانگی عرش الٰہی کو چلی باب قبولیت پہ دستک دی۔ نبی مانگے اور رب قبول نہ کرے؟ ادھر نبی دعا مانگ رہے ہیں ادھر ابو جہل کا ہرکارہ عمر کے دروازے پہ دستک دے رہا ہے۔ عمر باہر نکلے کہا کیا بات ہے ؟ کہا دارالندوہ میں مجلس شوری کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ چلئے مکہ کی ساری شوری کے ارکان آئے ہوئے ہیں تمہیں بلا رہے ہیں۔ کہا مجھے کیوں بلایا ہے؟ کہا جا کے سردار سے پوچھ لو کیوں بلایا ہے؟ پہنچے۔ ابو جہل کہتا ہے عمر آج ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس چراغ کو بجھا دیا جائے جو مکے میں خدا کی روشنی پھیلانا چاہتا ہے اور طے کیا ہے کہ کوئی آئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سر لائے سو اونٹ ہم سے انعام پا جائے۔ اس زمانے میں سو اونٹ بڑی بات تھی اور عمر تو کہا کرتے تھے کہ میری سب سے بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ سو اونٹ ہو جائیں زندگی آرام سے کٹ جائے۔ کہا سو اونٹ لے لو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سر لے آؤ اور تیرے سوا مکہ میں کوئی یہ جرات نہیں کر سکتا۔ کہا مجھے منظور ہے۔ تلوار کو تیز کیا بے نیام کر کے ہاتھ میں تھاما عمامہ باندھا نبی کے دروازے کی طرف چلے۔ راستے میں ایک مسلمان مل گیا۔ عمر کو کیا پتہ ہے کہ میں جا نہیں رہا لے جایا جا رہا ہوں۔ راستے میں ایک مومن ملا۔ کہا کیا بات ہے ؟ آج تیور بگڑے ہوئے تیوریاں چڑھی ہوئیں پیشانی پہ شکنیں پڑی ہوئیں۔ ہاتھ میں ننگی تلوار لئے کہاں جا رہے ہو ؟ دیکھا کہا تمہارے نبی کا سر لینے جا رہا ہوں۔ کہا نبی نے کیا قصور کیا ہے؟ کہا اسلام کی دعوت دے رہا ہے۔ کہا اگر اسلام کی دعوت دینا اور اسلام قبول کرنا گناہ ہے تو جاؤ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔