کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 117
اس کو حسین سے پہلا امام بھی مانتے ہیں۔ نام اس لئے نہیں لیتے کہ اس نے امیر معاویہ سے صلح کر کے ان کے ہاتھ پہ بیعت کی تھی۔ کس لئے نام نہیں لیتے؟ یہ سارے مسئلے انشاء اللہ آگے چل کے آئیں گے۔ انشاء اللہ۔ آپ دعا کریں اللہ ہمیں سچ کہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہم سب کو سچ پر عمل کرنے اس کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ۔ اللھم ارنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ۔ مومن کی دعا یہ ہونی چاہئے۔ مومن تعصبات کا شکار نہیں ہوتا۔ میں اس کو نہیں مانتا کہ یہ میری برادری کے بارے میں بات ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا وہ حسن موجود ہے جس کو کندھے پہ اٹھا کے خطبہ دیا ہے۔ وہ عباس موجود ہے جس کے لئے میدان بدر کی ساری رات نبی سویا نہیں ہے۔ وہ علی موجود ہے جس کو فاطمتہ الزھرہ عطا کی ہے۔ وہ عثمان موجود ہے جس کے نکاح میں ام کلثوم اور رقیہ دی ہیں۔ عبد اللہ ابن عباس موجود ہے کہ رات کی تاریکی میں جس کے لئے دعا مانگی ہے سب موجود ہیں۔ بستر علالت پر ہیں۔ سر اٹھاتے ہیں فرمایا مروا ابا بکر فلیصل بالناس جاؤ ایک بندے کو حکم دو کہ محمد کی زندگی میں محمد کے مصلہ پر کھڑا ہو کے محمد کے صحابہ کی امامت کروائے۔ لوگ گوش بر آواز ہیں کس کا نام لیتے ہیں۔ عباس کا جو باپ کے قائم مقام ہے علی کا جو داماد بھی ہے چچا کا بیٹا بھی ہے‘ عقیل کا جو ابو طالب کا بڑا بیٹا ہے عبد اللہ ابن عباس کا جس کے لئے رات کی تاریکی میں دعا مانگی ہے حسن کا جس کو گود میں اٹھا کے خطبہ دیا ہے۔ لوگوں نے کان لگائے آقا کس کو کہیں گے؟ فرمایا مروا ابا بکر فلیصل بالناس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی زندگی میں اپنی امت کا امام بنانے کا حکم دیتا ہے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیتا ہے۔ کس کا نام ہے؟ اگر خاندان کی بات ہوتی تو اپنے خاندان کے بندے کا نام لینا چاہئے تھا۔ بات خاندان کی بنا لی ہے۔