کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 116
کیا ہے اس نے جو کچھ کیا اپنے گھر کے لئے کیا ہے اپنے اہل بیت کے لئے کیا۔ انشاء اللہ حضرت حسین کی شہادت کے سلسلے میں بحث آئے گی کہ نبی کائنات نے علی کے ہوتے ہوئے اور صرف علی؟ اپنے اس چچا کے ہوتے ہوئے جس کو نبی نے ساری کائنات کے سامنے کہا ان عباس عمی صنوابی لوگو! عباس میرا چچا ہی نہیں میرا باپ بھی ہے۔ کون کہہ رہا ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کا امام اور حضرت عباس سے محبت کتنی تھی کہ جب جنگ بدر کے موقع پر حضرت عباس مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ کافروں کے لشکر میں لڑتے ہوئے آئے اور مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے اور قیدیوں کی رسیوں سے باندھ کے خیموں میں رکھا گیا تو مسلمانوں نے دیکھا کہ سرور کائنات کے خیمے سے سسکیوں کی آواز آرہی ہے رونے کی آواز آرہی ہے۔ پریشان ہوئے۔ صبح دم نبی نے نماز پڑھائی۔ صحابہ نے چہرہ دیکھا کہ رو رو کے کائنات کے امام کی آنکھیں سوجھی ہوئی ہیں۔ پورے چہرے پر بیداری کی تھکن کی علامات ہیں۔ صحابی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا آقا کیا بات ہے رات آپ کے کمرے سے سسکیوں کی آواز آتی تھی اب دیکھتے ہیں آپ کی آنکھوں میں آنسو ہیں؟ چہرہ مبارک ہمیشہ ہنسنے والا‘ دمکنے والا‘ مسکرانے والا‘ چمکنے والا‘ چہرہ آج افسردہ ہے۔ فرمایا لوگو! میرا چچا میری قید میں پڑا ہوا ہے جب رسیوں کی وجہ سے اسے ہلتے ہوئے تکلیف ہوتی تھی میرے سینے میں خنجر چلتا تھا۔ رات بھر مجھے اس لئے نیند نہیں آئی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تیرے باپ تیرے چچا کو زنجیروں میں جکڑا گیا ہے۔ آقا آپ نے اسے رہا کیوں نہیں کر دیا؟ فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمام لوگوں سے یکساں سلوک کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا چچا ہے اسے چھوڑ دیا جائے باقی کو قید میں رکھا جائے۔ نہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نظروں میں سب برابر ہیں۔ لیکن تکلیف قدرتی بات ہے۔ اتنا پیار ہے۔ وہ چچا موجود ہیں وہ حسن رضی اللہ تعالی عنہ موجود ہے۔ اس کا نام نہیں لیتے۔ وہ علی کا فاطمہ کا بڑا بیٹا ہے اور یہ وہ بیٹا ہے کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ نبی پاک نے ایک دفعہ خطبہ اس کو اپنے کندھے کے اوپر اٹھا کے دیا تھا۔ اس کا نام کیوں نہیں لیتے؟