کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 112
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جیسے حق کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ہر آدمی کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر صحابی کا نبی کے ہر تلمیذ کا سرور کائنات کے ہر شاگرد کا اپنا اپنا مقام ہے۔ جو مقام صدیق کا ہے وہ فاروق کا نہیں جو فاروق کا ہے وہ ذوالنورین کا نہیں جو ذوالنورین کا ہے وہ علی المرتضی کا نہیں جو خالد ابن ولید کا ہے وہ عبد اللہ ابن مسعود کا نہیں جو ابو عبیدہ ابن جراح کا ہے وہ عبد اللہ ابن عباس کا نہیں جو سعد ابن ابی وقاص کا ہے وہ ابو ذر کا نہیں جو زبیر اور طلحہ کا ہے وہ عمار اور یاسر کا نہیں۔ ہیں سب مقدس لیکن اپنے اپنے مقام پر۔ سب کی اپنی اپنی شان اور یہ فرق ہم نے روا نہیں رکھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روا رکھا ہے۔ ہماری تفریق نہیں ہے۔ ہماری طرف سے فرق نہیں کیا گیا۔ ہم نہیں کرتے لیکن یہ فرق تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ مدینہ کی مسجد ہے صحابہ کا جمگھٹا ہے سرور کائنات کا دروازہ ہے آپ کا حجرہ مبارک ہے۔ نبی کائنات مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ ایک ہاتھ صدیق اکبر کے کندھے پر ہے دوسرا ہاتھ فاروق اعظم کے کندھے پر ہے۔ ایسے عالم میں مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ سب نگاہیں کائنات کے امام کی طرف اٹھ گئیں کہ صحابہ کا تو جی خوش ہو جاتا تھا جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھتے تھے اور دنیا میں نبی کے چہرہ مبارک کو دیکھنے سے اور کیا بات افضل ہو سکتی ہے؟ حقیقی بات یہ ہے کہ سن لو جنت بہت بڑی نعمت ہے لیکن نبی کائنات کی رفاقت جنت سے بھی بڑی چیز ہے۔ ایک نگاہ پڑنے سے تو جنت مل جاتی ہے اور جس نے زندگی گزار دی اس کی شان کا کیا کہنا؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دروازے سے مسجد پاک میں داخل ہوئے۔ اس عالم میں کہ داہناں ہاتھ صدیق کے کندھے پر بایاں ہاتھ فاروق کے کندھے پر ہے۔ صحابہ نے دیکھا جی خوش ہو گیا مسکرا پڑے۔ کائنات کے امام نے کہا ساتھیو کیوں مسکرائے ہو؟ کہا یا رسول اللہ خوبصورت تو آپ کو رب نے بنایا ہے خوبصورتی تو آپ کو رب نے عطا کی ہے خوب روئی یہ تو قدرت کا عطیہ ہے لیکن آقا جتنے حسین آج آپ دکھائی دے