کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 111
تو فاروق نے جواب دیا کہ آج میری خواہش کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالا نہیں جا سکتا۔ کیوں کیا بات ہے؟ فرمایا آج میری سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ کائنات کا کوئی چپہ ایسا نہ بچے جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم نہ لہرا رہا ہو۔ دنیا میں کوئی ایک ایسی جگہ باقی نہ بچے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین نہ پہنچ گیا ہو۔ اس قدر دین کی خدمت کی۔ اس قدر اسلام کو اپنے خون سے آراستہ کیا۔ اس طرح مسلمانوں کی مملکت کی بنیاد رکھی کہ آج چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی مسلمان خواب دیکھتا ہے تو فاروق کی حکومت کا خواب دیکھتا ہے۔ او رونے والو! دھونے والو! لوگوں پر طعن و تشنیع کے بادل برسانے والو! لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والو! نبی کے صحابہ پر زبان طعن دراز کرنے والو! آؤ! لمحے بھر کے لئے انصاف سے سوچو کہ اگر فاروق نہ ہوتا تو اسلام کی تاریخ کی ابتداء نہیں ہو سکتی تھی۔ کون سا اسلام؟ اگر اسلامی سلطنت کے اصولوں کو اس کی بنیادوں کو‘ اس کے قواعد کو اسلامی سلطنت کے دستور کو اسلامی حکومت کے نظام کو اگر کسی نے عملی طور پر نافذ کیا اور دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو ہمہ جہت سے عملا نافذ کر کے دکھایا تو وہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ کون ہے ؟ اسلام کی تاریخ میں دوسرے نام کو بتلاؤ جو یہ بتلا سکے کہ اسلامی حکومت کا انداز یہ ہے؟ میں نے پہلے کہا تھا۔ ہم نے کبھی کسی پر طعن نہیں توڑا کبھی کسی پر ظاہر اور خفیہ چوٹ نہیں کی کبھی کسی پر پوشیدہ اور جلی طنز نہیں کی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سب تو ہمارے ہیں۔ اپنوں پہ چوٹ کون کرتا ہے۔ چوٹ تو اس پہ کی جاتی ہے جو بیگانہ ہو۔ علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارا ہے‘ حسن رضی اللہ عنہ بھی ہمارا ہے‘ حسین رضی اللہ عنہ بھی ہمارا ہے۔ ہم چوٹ کریں تو کس پر کریں؟ چوٹ کرنے سے ہمارے تو ایمان میں خلل آجاتا ہے وگرنہ طنزوتشنیع کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کسی پر طعن توڑنا اعتراض کرنا یہ کوئی دشوار بات نہیں ہے۔ لیکن جن کا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم ان پر طعن کیسے توڑیں؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ