کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 11
آج ہمارے جسم چھلنی ہو گئے۔ آج ہمارے دل زخمی ہو گئے‘ آج ہمارے جگر پھٹ کر رہ گئے ہیں۔ آج ہم پہ جو گزری ہے نہ آسمان اس کو جان سکتا ہے نہ زمین اس کو محسوس کر سکتی ہے۔ کعبے کے رب کی قسم میرا ایک بچہ ہے اگر وہ مر جاتا کٹ جاتا مجھے اتنا صدمہ نہ ہوتا۔ آج ہم زندہ کیوں ہیں؟ کاش آج سے پہلے ہم مر گئے ہوتے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش منظور کا اعلان کیا تو آپ نے بڑی شدت کے ساتھ بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں حصہ لیا۔ اس کا سبب آپ کے وہی جذبات تھے جن کا اظہار آپ نے اپنے خطبہ میں فرمایا۔ چنانچہ آپ نے اپنی خطابت کی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور تحریک کے جلسوں میں اپنی لاجواب خطابت سے ایک عجیب ہی رنگ پیدا کر دیا۔ میدان سیاست میں پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا تو آپ کو یحیی خان کے دور میں ہو چکا تھا لیکن اب ایک ایسا دور شروع ہو رہا تھا جس میں آپ پر مصائب اور آلام کے پہاڑ توڑ دئیے گئے۔ آپ کی تقریروں کی کاٹ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ حکومت کے خلاف آپ کا لہجہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت ہو رہا تھا اور عوامی حکومت اپنی طاقت کے نشے میں مدہوش تھی۔ اس کو یہ سب کچھ کیسے گوارہ تھا کہ ایک ایسا شخص جو میدان میں تنہا تھا اور کسی سیاسی پارٹی سے اس کا تعلق نہ تھا اور وہ صرف اللہ کے سہارے ایک مضبوط حکومت کے ساتھ ٹکر لے رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس کی بدعنوانیوں کو عوام پہ آشکار کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔ کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے چنانچہ حکومت وقت کے خلاف تقریروں کے جرم میں متعدد مقدمات دائر کئے گئے اور آپ کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ کی جماعت کی طرف سے آپ کی گرفتاری کی مذمت کی جاتی لیکن صورت حال اس کے برعکس تھی اور بہت الم ناک تھی جس کا ذکر آپ نے اپنے آخری انٹرویو میں بھی کیا ہے ’’جمعیت اہل حدیث کے ان نام نہاد کرتا دھرتا مولویوں نے جو حضرت سید مولانا داؤد