کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 104
اتفاق اگر ہو سکتا تھا تو ایسی شخصیت پہ ہی ہو سکتا تھا جس کا نام ہمیشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آتا تھا۔ لوگ جس کا احترام اور عزت کرتے تھے۔ جس کے بارے میں اختلاف کی کوئی جرات اور جسارت نہ کرتا ہو اور پھر تاریخ کے اوراق کو اٹھاؤ گردش لیل و نہار نے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کتنا اعلی اور مومنوں کا انتخاب کتنا عمدہ تھا۔ ادھر سرور کائنات کی وفات ہوئی ادھر فتنوں نے آنکھیں کھول لیں۔ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کا فتنہ‘ منکرین زکو کا فتنہ‘ کوہستان کے مرتدوں کا فتنہ بڑے بڑوں کے جگر پانی ہو گئے لرز گئے۔ بڑے بڑے سورما دلاور شجاع بہارد گھبرا گئے۔ لیکن ابوبکر کمزور آدمی کوہ ہمالا سے زیادہ استقامت کے ساتھ تنہا کھڑا ہے۔ کہا جاؤ لشکر اسامہ کو کہو جہاں تجھے حبیب کبریا نے روانہ کیا تھا روانہ ہو جاؤ۔ علی جیسا دلیر عمر جیسا شجاع آئے۔ ابوبکر کیا کرتے ہو؟ فتنوں نے آنکھ کھولی ہے۔ یہی فوج ہے اس کو روانہ کر رہے ہو۔ دارالخلافہ مدینہ کا دفاع کون کرے گا ؟ آنکھ اٹھائی۔ کہا کعبے کے رب کی قسم ہے جس جھنڈے کو میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچا کیا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اونچا کیا ہوا جھنڈا ابو بکر نیچا نہیں کر سکتا۔ تم نے کہا مدینے کا دفاع کون کرے گا؟ دارالخلافہ ننگا ہو جائے گا۔ واللّٰه لو جرت الکلاب بارجل امھات المومنین کعبے کے رب کی قسم ہے میں یہ گوارہ کر سکتا ہوں کہ ام المومنین صدیقہ جو میری بیٹی بھی ہے کے دامن کو کتے گھسیٹیں لیکن یہ گوارہ نہیں کر سکتا کہ جس کام کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو وہ پیچھے رہ جائے۔ جاؤ اس کو کہو روانہ ہو جائے۔ مدینے کا دفاع میں ابوبکر کروں گا۔ جب تک میرے جسم میں جان ہے دنیا کی کوئی طاقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر پہ بری نگاہ نہیں ڈال سکتی۔ زکو کے مانعین نے اعلان کیا زکو نہیں دیتے۔ کہا جاؤ تلواروں کو بے نیام کر لو عمر نے کہا کس کس سے لڑ رہے ہو؟ سب کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہو؟ ہاتھ اٹھایا اور فاروق کے سینے پہ تھپڑ مارا۔ کہا جبار فی الجاھلیتہ جبان فی الاسلام