کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 103
کو کہو امامت کروائے۔ ابوبکر کھڑے ہو گئے۔ اوپر سے جبرائیل آگیا۔ کہا اے میرے اللہ کے محبوب اٹھو‘ اپنی آنکھوں سے سادات صحابہ کا پیچھے کھڑا ہونا اور ابوبکر کا آگے کھڑا ہونا دیکھ تو لو۔ دیکھو تو سہی جو تیرے حکم سے پیچھے وہ ابوبکر سے پیچھے نہیں رہا اسلام سے پیچھے رہ گیا ہے۔
اٹھئے۔ نبی نے وضو کیا اٹھ کے بیٹھے۔ کہا سہارا دو۔ سہارا دے کر کھڑا کیا۔ اپنے دروازے کو کھولا۔ حدیث کے الفاظ ہیں۔ حجرہ عائشہ کا دروازہ مسجد نبوی کے صحن میں کھلتا تھا۔ دروازہ کھلا۔ ساری مسجد میں میرے نبی کی خوشبو پھیل گئی۔ وہ نبی کہ جس راہ سے گزر جائے وہ راہ معطر ہو جائے۔ وہ نبی کہ جس راستے سے گزر جائے وہ راستہ مہک جائے۔ میرا آقا کہ جس کے بارے میں کسی نے کہا
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
صحن مسجد میں آئے۔ صحابہ پہ نگاہ ڈالی۔ عمر بھی پیچھے‘ ابو عبیدہ ابن جراح بھی پیچھے‘ سعد ابن ابی وقاص بھی پیچھے‘ اپنی پھوپھی کا بیٹا زبیر‘ بھی پیچھے اور وہ طلحہ بھی پیچھے کہ جس کے بارے میں نبی نے کہا
فداک ابی وامی
طلحہ ساری کائنات کے ماں باپ مجھ پہ قربان اور میرے ماں باپ تجھ پہ قربان۔ وہ بھی پیچھے۔ اور اپنا چچا عباس بھی پیچھے اپنے داماد علی اور عثمان بھی پیچھے اور تمہاری روایت کے مطابق اپنے نواسے حسن اور حسین بھی پیچھے۔ اور صدیقہ کا باپ یار غار حوض کوثر کا ساتھی آگے۔ نبی کے چہرے پہ اطمینان اور مسرت کی لہر آئی۔ صحابہ کو خوشبو سے پتہ چل گیا کہ کائنات کا تاجدار آیا ہے۔ کھنکارنے لگے۔ جس طرح کہ بتلا رہے ہوں ابوبکر ہٹ جاؤ امام اعظم آگیا ہے اور پھر خوشبو ابوبکر تک بھی پہنچی۔ نبی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے۔ ابوبکر محسوس کرتے ہیں کہ آقا آگئے پیچھے ہٹنے لگے۔ نبی نے اپنا ہاتھ ابوبکر کے کندھے پہ رکھ دیا۔ فرمایا ابوبکر پیچھے نہ ہٹو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی آنکھوں سے تیری امامت کو دیکھنے آیا ہے۔ پیچھے نہیں ہٹنا۔ اپنے ہاتھ سے کھڑا رکھا۔ کہا کھڑے رہو۔ قول سے بھی ثابت کیا ابو بکر امام اور اپنے فعل سے بھی ثابت کیا ابو بکر امام۔