کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 101
کہا آقا ان کو اپنے امام کا انتظار ہے۔ فرمایا
مروا ابا بکر فلیصل بالناس
جاؤ لوگوں کو کہو میرے بلال کو کہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی زندگی میں اپنی جگہ اپنی امت کا امام ابوبکر کو نامزد کر دیا ہے۔
مروا ابا بکر فلیصل بالناس
جاؤ ابوبکر کو جا کے کہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مصلے پہ کھڑا ہو جائے۔
میری بات ذرا سننا۔
اس دن کیا بنو ہاشم کے سردار موجود نہیں تھے؟
کیا نبی کے چچا عباس موجود نہیں تھے؟
کیا نبی کے چچا کے بیٹے عقیل‘ علی اور عبد اللہ اور فضیل موجود نہیں تھے؟
کیا نبی کے داماد ذوالنورین اور علی موجود نہ تھے؟
اور تو اور او تمہاری روایت کے مطابق کیا نبی کے نواسے حسن و حسین موجود نہ تھے؟
سب موجود تھے اور نبی نے آنکھیں کھول کے کہا میرے نواسے بھی پیچھے میرا چچا بھی پیچھے میرے داماد بھی پیچھے آگے کھڑا ہو گا تو میرا ابو بکر کھڑا ہو گا۔
مروا ابا بکر فلیصل بالناس
جاؤ میرے ابوبکر کو کہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مصلے پر کھڑا ہو جائے۔ وہ آگے کھڑا ہو سارے سادات صحابہ پیچھے کھڑے ہوں۔ کیونکہ اس کے سوا کسی شخص پہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔ سنو تو سہی کہ نبی نے کیا کہا ہے ؟
کون تھا جو ٹوکے؟ کون تھا جو بولے؟
آج ابوبکر کی امامت پر لڑتے ہو۔ او لڑنا تھا تو اس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں نہیں لڑائی کی؟
اس دن اعتراض کرنا تھا۔ کس نے اعتراض کیا کس نے بولنے کی جسارت کی؟
وئی نہ بولا اور بولی تو تنہا ام المومنین صدیقہ بولی۔ اور وہ صدیقہ جو قرآن کے الفاظ میں سارے مومنوں کی ماں ہے اور جو اس کو ماں نہیں مانتا وہ مومن نہیں ہے۔
اَلنَّبِیُّ اُوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُھُمْ۔(سورۃالاحزاب:۶)