کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 100
پر اذان دینے کے بعد جماعت کی امامت کے لئے حضرت بلال آکر کھڑے ہوئے۔ الصلوٰۃ آقا نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ صحابہ کا جمگھٹا مسجد نبوی کا صحن بھرا ہوا۔ الصلوٰۃ سب کو پتہ ہے کہ نبی پاک بیمار ہیں لیکن کسی کو یہ احساس نہیں کہ نبی اتنے بیمار ہو گئے کہ امامت کے لئے بھی نہیں آسکتے۔ آقا! الصلوٰۃ دروازے کو جنبش نہیں ہوئی۔ سارے صحابہ صدیقہ کائنات ابوبکر کی بیٹی کے گھر کی طرف اپنی نگاہوں کو لگا لیتے ہیں۔ وقت گزرتا جا رہا ہے‘ صحابہ کے دل ڈوبتے جا رہے ہیں۔ کوئی آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ اللہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی ہمارے پاس نہ ہوں گے۔ آج کیا ہو گیا ہے؟ وقت ہو چلا ہے۔ امام کائنات باہر تشریف نہیں لا رہے کیا معاملہ ہے؟ بلال پھر بیٹھ گئے۔ صحابہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے پھر اٹھ کے حجرہ عائشہ پہ پہنچے الصلوٰۃ نبی پہ غشی طاری ہے۔ کوئی جواب نہیں ملتا۔ بلال روتے ہوئے آکے اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ صحابہ کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو گئیں۔ سب مہر بلب اور گوش برآواز ہیں۔ پھر بلال اٹھے۔ الصلوٰۃ الصلوٰۃ۔ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ اتنی دیر میں رحمت کائنات نے اپنی آنکھیں کھول لیں۔ ام المومنین صدیقہ سامنے بیٹھی ہیں۔ جھک کے کہنے لگیں میرے آقا آپ کے پروانے آپ کی دید کے منتظر ہیں۔ مسجد نبوی کا صحن آہوں اور کراہوں سے بھرا ہوا ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا وقت ہو چلا ہے۔ بلال کئی دفعہ آکے آواز دے چکا ہے۔ آپ نے آنکھیں اٹھائیں اور لبوں کو جنبش ہوئی اور مَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی، اِنْ ھُوَاِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی،(سورۃالنجم:۳‘۴ ) خدا کے کہنے پر جبرائیل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پہ بولنے لگا۔ فرمایا عائشہ نماز کا وقت ہو گیا ہے تو لوگ پھر کیا کہتے ہیں؟