کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 10
ملتی اور لوگوں کو مایوس واپس جانا پڑتا۔ آپ ساڑھے بارہ بجے خطبے کا آغاز فرماتے لیکن لوگ دس بجے ہی پہلی صف میں جگہ حاصل کرنے کے لئے مسجد پہنچ جاتے تھے۔ میدان سیاست میں آمد : سیاست سے تو آپ کو اس زمانے سے ہی دلچسپی تھی جب آپ ابھی صرف طالب علم تھے لیکن عملی سیاست میں آپ اس وقت آئے جب ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ آپ کا آغاز انتہائی شاندار تھا جو آپ نے عید کے ایک سحر انگیز خطبے سے کیا۔ یہ آپ کی پہلی سیاسی تقریر تھی اور اس ایک تقریر نے ہی آپ کو صف اول کے خطیبوں میں کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے باقاعدہ سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ایوب خان کے بعد یحیی کے دور میں بھی آپ نے اپنی تحریر اور تقریر سے حکومت کی بداعمالیوں پر گرفت کی۔ اس کے نتیجہ میں آپ پر کئی ایک مقدمات قائم ہوئے لیکن یہ مقدمات آپ کے حوصلے کو کم کرنے کی بجائے آپ کے عزم اور استقلال میں اضافہ کا موجب بنے۔ آپ کو راہ حق سے ہٹانے کی بجائے راہ حق کو اور زیادہ مضبوطی سے اختیار کرنے کی وجہ ٹھہرے۔ آپ کے اپنے الفاظ میں جیسے جیسے مقدمات بنتے گئے میرا سیاست کا ذوق کندن ہوتا رہا۔ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے۔ پاکستان سے محبت ان کے ایمان کا حصہ تھی اور اس کے ثبوت میں ان کا صرف وہی خطبہ کافی ہے جو انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ارشاد فرمایا تھا۔ آپ نے آنسوؤں اور سسکیوں میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ سننے والے اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکے تھے اور بے اختیار رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ’’ آج ہماری اٹھی ہوئی گردنیں جھک گئی ہیں۔ آج ہمارے تنے ہوئے سینے سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ آج ہماری آوازیں کجلا گئی ہیں۔ آج ہماری روحیں مرجھا گئی ہیں۔ آج ہمارے دل بیٹھ گئے ہیں۔ آج ہمارے اعصاب ٹوٹ گئے۔