کتاب: خوشگوار زندگی کے 12 اصول - صفحہ 28
{ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ } (سورۂ بقرۃ: ۱۸۶) ’’ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دیجیئے کہ میں ( ان کے ) قریب ہی ہوں، کوئی دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ‘‘ ۔ اس لیئے جو قریب ہے ، اور پکار کو سن سکتا ہے ، اور سن کر قبول بھی کرتا ہے ، اور پھر مدد کرنے پر بھی قادر ہے ،صرف اسی کو پکارنا چاہیئے ، اوراسے چھوڑ کر کسی دوسرے کو نہیں پکارنا چاہیئے۔ دعا اسکی قبولیت کے اوقات میں کرنی چاہیئے ، مثلاً سجدے کی حالت میں، آذان اور اقامت کے درمیان ، یومِ جمعہ کو عصر کے بعد سے لے کر مغرب تک کے دوران اور خاص طور پر رات کے آخری حصے میں، جبکہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاکر کہتا ہے : (( مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہٗ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہٗ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہٗ)) وفی روایۃ لمسلم : (( فَلاَ یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ)) (بخاری:۱۱۴۵،۶۳۲۱،۷۴۹۴،مسلم::۷۵۸) ’’ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ‘‘ اور مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے : ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے ‘‘ ۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم