کتاب: خوشگوار زندگی کے 12 اصول - صفحہ 16
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ ان پر اس کی نوازشیں ہوتی ہیں اور وہ رحمتِ الٰہی کے مستحق ہوتے ہیں، گویا صبر وہ چیز ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے ، اور اسے اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے ۔ آزمائش کوئی بھی ہو ، چھوٹی ہو یا بڑی ، جسمانی ہو یا ذہنی ، ہر قسم کی آزمائش مومن کیلئے باعثِ خیر ہی ہوتی ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ ، وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ ، وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ ، حَتّٰی الشَّوْکَۃِ الَّتِیْ یُشَاکُہَا ، إِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ)) ( البخاری: ۵۶۴۲ ، مسلم : ۲۵۷۳) ’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے ، یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتا ہے ، حتی کہ اگراسے ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ‘‘ ۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : { مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہٗ أَذًی إِلاَّ حَاتَّ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ} ( البخاری: ۵۶۴۷ ، مسلم : ۲۵۷۱) ’’ جب کسی مسلمان کو کوئی اذیت ( تکلیف ) پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتا ہے جس طرح درخت کے پتے گرتے ہیں ‘‘۔ قارئین ِکرام ! ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف اور ادنیٰ ترین آزمائش پر ، حتی کہ ایک کانٹا چبھنے پر بھی اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ صبر وتحمل کا دامن نہ چھوڑے ، اور ہر آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائے ۔ یہ بات بھی آپ کو معلوم ہونی چاہیئے کہ کسی بندہ ٔ مومن میں جب یہ دونوں صفات (صبر و شکر ) جمع ہو جائیں، تو اسے گویا خیرِ کثیر نصیب ہو گئی ،صحیح مسلم میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا