کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 99
و فعل سے یہ واضح کر دیا کہ دعوت کی تحریک کبھی رک نہیں سکتی، حتیٰ کہ سید الخلق، امام الانبیاء، قائد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی اور لشکر اسامہ کو اس کی مہم پر روانہ کرنے میں جلدی کر کے آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ دعوتی کام رک نہیں سکتا، وہ جاری رہے گا۔ چنانچہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے دن اعلان کروایا کہ لشکر اسامہ سے متعلق حضرات جرف میں اپنی لشکر گاہ میں پہنچ جائیں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیعت کے بعد والے اپنے خطاب میں واضح کر دیا تھا کہ وہ اس دین کی خدمت کے لیے پوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔[1] اور ایک روایت میں آپ کا یہ قول مذکور ہے: ’’لوگو! اللہ سے تقویٰ اختیار کرو، اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہو، اپنے رب پر توکل کرو، یقینا اللہ کا دین قائم ہے اور اللہ کا کلمہ مکمل ہے۔ اللہ اس کی مدد کرے گا جو اس کے دین کی مدد کرے گا اور اپنے دین کو عزت وغلبہ عطا کرے گا۔ جو لوگ ہمارے خلاف اٹھیں ان کی ہم پروا نہیں کرتے۔ یقینا اللہ کی تلواریں ابھی کھلی ہوئی ہیں ۔ ہم نے ابھی انھیں رکھا نہیں ہے۔ جو ہمارے خلاف اٹھے گا ہم اس سے اسی طرح جہاد کریں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کرتے تھے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص ظلم و بغاوت پر نہ اترے ورنہ اس کا وبال اس کے سر ہوگا۔‘‘[2] اسلامی خلافت کی ہیبت و دبدبہ پر لشکر اسامہ کا اثر: روم کو مرعوب کر کے لشکر اسامہ فتح وغنیمت کے ساتھ واپس ہوا، شاہ روم ہرقل جو اس وقت حمص میں موجود تھا اپنے جرنیلوں کو جمع کر کے ان سے کہا: اسی چیز سے میں نے تم کو ڈرایا تھا لیکن تم لوگوں نے میری بات نہ مانی۔ عرب مہینے بھر کی مسافت طے کر کے تم پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر اسی وقت بالکل صحیح سالم واپس ہو جاتے ہیں ، ان کو زخم تک نہیں لگتا۔ ہرقل کے بھائی یناف نے کہا: فوج بھیجئے جو بلقاء (اردن) میں ڈٹ جائے اور حدود کی حفاظت کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا، فوج روانہ کی، ان پر اپنے ایک ساتھی کو امیر مقرر کیا اور یہ فوج وہاں مقیم رہی یہاں تک کہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں اسلامی افواج شام کی طرف آگے بڑھیں ۔[3] پھر تمام رومیوں کو تعجب ہوا اور انھوں نے کہا: یہ کیسے لوگ ہیں ، ان کا نبی وفات پا ہے پھر بھی یہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں ؟[4] اسی طرح شمال میں واقع عرب قبائل اسلامی سلطنت کی قوت سے خوف زدہ اور مرعوب ہو گئے۔[5] جس وقت لشکر اسامہ مدینہ پہنچا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کو لے کر مدینہ سے نکل کر ان کا استقبال کیا، لا الٰہ الا اللہ
[1] قصۃ بعث ابی بکر جیش اسامۃ: ۲۷۔ [2] البدایۃ والنہایۃ : ۵؍۲۱۳، ۲۱۴۔ [3] المغازی: ۳/۱۱۲۴، طبقات ابن سعد: ۲/۱۹۲۔ [4] تہذیب ابن عساکر: ۱/۱۲۵، تاریخ ابن عساکر: ۱/۴۳۹۔ [5] تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: ۲۷۰۔