کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 98
ہیں ۔ کل وہ کہاں تھے اور آج کہاں ہیں ؟ اور کہاں گئے وہ قوت وطاقت والے جنہیں میدان جنگ میں قوت و غلبہ رہتا تھا، وہ سب زمانے کی نذر ہو گئے اور بوسیدہ ہو گئے اور ان پر تباہی و بربادی آئی… کہاں گئے وہ ملوک وسلاطین جنہوں نے زمین کو آباد کیا؟ وہ دور ہوئے، انھیں بھلا دیا گیا، اور بھلا دیے گئے جیسے تھے ہی نہیں ۔ لیکن اللہ عزوجل نے ان پر تاوان باقی رکھا اور ان کی لذتوں کو ختم کر دیا۔ وہ چلے گئے ان کے اعمال ان کے ساتھ رہے، دنیا دوسروں کے ہاتھ آئی۔ ان کے بعد ہم بھیجے گئے۔ اگر ہم نے ان سے عبرت حاصل کی تو ہمیں نجات ملے گی اور اگر ہم ان کی ڈگر پر چلے تو ہمارا بھی انھی کی طرح انجام ہوگا۔ حسین چہرے والے اور اپنی جوانی پر ریجھنے والے کہاں ہیں ؟ وہ مٹی میں مل گئے، انھوں نے جو کوتاہی کی وہ ان کے لیے حسرت بن گئی۔ کہاں گئے وہ سلاطین جنہوں نے شہر بسائے، انھیں فصیلوں کے ذریعہ سے محفوظ کیا اور ان کے اندر عجیب و غریب چیزیں بنائیں اور آخر میں اپنے بعد والوں کے لیے چھوڑ گئے، ان کے یہ محلات خالی پڑے ہیں اور وہ قبر کی تاریکیوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں ۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا ﴾ (مریم: ۹۸) ’’ہم نے ان سے پہلے بہت سی جماعتیں تباہ کر دی ہیں ، کیا ان میں سے ایک کی بھی آہٹ تو آپ پاتے ہیں یا ان کی آواز کی بھنک بھی آپ کان میں پڑتی ہے؟‘‘ کہاں گئے وہ لوگ جنہیں تم اپنے آباء و اجداد اور بھائیوں سے پہچانتے ہو؟ ان کی زندگیاں ختم ہو گئیں اور اپنے کیے کی طرف لوٹا دیے گئے اور موت کے بعد شقاوت یا سعادت کے لیے وہیں جا ٹھہرے۔ خبردار ہو جاؤ! اللہ کا کوئی شریک نہیں اللہ اور کسی مخلوق کے درمیان کوئی رشتہ وناطہ نہیں ، جس کی وجہ سے وہ اس کو خیر سے نوازے اور اس کی وجہ سے اس سے تکلیف دور کرے۔ صرف اس کی اطاعت اور اتباع کی اساس پر معاملہ ہوتا ہے۔ یاد رکھو! تم سب مقروض غلام ہو۔ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیا تمھارے لیے وہ وقت قریب نہیں آیا کہ جہنم تم سے دور ہو جائے اور جنت قریب ہو جائے؟‘‘[1] ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واجب ہے: لشکر کی روانگی کے واقعہ سے ہمارے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے قول
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۶؍۳۰۷، تاریخ الطبری : ۲؍ ۲۴۱۔ ط: الکتب العلمیۃ۔