کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 97
وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حالات میں تبدیلی آگئی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو اکثر عرب ارتداد کا شکار ہو گئے، نفاق امڈ آیا، مجھ [1] پر ایسی مصیبت ٹوٹی کہ اگر پہاڑوں پر ٹوٹتی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے اور صحابہ کی یہ کیفیت ہوئی جیسے باغ میں بارش سے بھیگی ہوئی بکریاں بارش کی رات میں درندوں بھری زمین میں ہوں ۔ [2]
پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زمام خلافت سنبھالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیسرے دن ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ اب لشکر اسامہ کو اپنی مہم پر روانہ ہونا ہے۔ لہٰذا ہر شخص جس کا نام لشکر اسامہ میں ہے وہ مدینہ چھوڑ کر مقام جرف میں اپنی لشکر گاہ میں پہنچ جائے۔[3]
پھر آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا:
’’لوگو! یقین جانو میں تم جیسا ہوں ، مجھے نہیں معلوم شاید تم لوگ مجھے ایسی باتوں کا مکلف کرو گے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو طاقت تھی، اللہ نے آپ کو سارے عالم پر منتخب فرمایا تھا، اور آپ کو آفات سے محفوظ رکھا تھا۔ میرا کام اتباع ہے۔ میں بدعت ایجاد کرنے والا نہیں ۔ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دینا اور اگر کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی آپ نے کبھی کسی پر ظلم نہ کیا کہ وہ آپ سے مطالبہ کرے۔ لیکن میرے ساتھ شیطان ہے وہ جب سوار ہو جائے تو مجھ سے دور رہو۔ تم موت کے سائے میں صبح وشام کرتے ہو جس کا علم تم سے اوجھل ہے۔ اللہ کے بغیر تمھیں اس کی استطاعت نہیں ۔ لہٰذا تم نیکیوں میں سبقت کرو قبل ازیں کہ موت اعمال کا سلسلہ کاٹ دے۔ کچھ لوگ اپنی موت بھول گئے اور اپنے اعمال دوسروں کے لیے کیے۔ خبردار! تم اس طرح نہ ہو جانا۔ محنت کرو، محنت کرو، سبقت کرو، سبقت کرو، جلدی کرو، جلدی کرو۔ تمھارے پیچھے تیز رفتار طلب کرنے والا لگا ہوا ہے۔ موت سے بچو، گزرے ہوئے آباء و اجداد اور بھائیوں سے عبرت پکڑو، زندوں پر رشک نہ کرو، مگر اس چیز میں جس میں مردوں پر رشک کرتے ہو۔‘‘[4]
نیز آپ نے پھر خطاب فرمایا اور اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ صرف وہی اعمال قبول فرماتا ہے جو صرف اس کی رضا کے لیے کیے جائیں ۔ لہٰذا تم اعمال اللہ کی رضا کے لیے کرو، ایسی صورت میں تم اس کو اپنی محتاجی و فقر کے وقت کے لیے خالص کر لو گے۔ تم میں سے جو مر گئے ان سے عبرت حاصل کرو اور ان میں غور و فکر کرو جو تم سے قبل گزرے
[1] تاریخ خلیفۃ بن خیاط:۱۰۲، ’’میرے والد پر‘‘ ہے۔
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۶؍۳۰۹۔
[3] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۰۷۔
[4] البدایہ والنہایۃ: ۶؍۳۰۷، تاریخ الطبری: ۲؍۲۴۱، ۲۴۵، ط: الکتب العلمیۃ۔